بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی سے کوئی رقم دھوکے سے لی اور اب مالک بھی معلوم نہیں، تو کیا کرے؟


سوال

کسی شخص سے کوئی چیز یا رقم دھوکہ دے کر یا جھوٹ بول کر لی ہو اور اب اس شخص کا پتہ نہ ہو،یعنی یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کہاں رہتا ہے؟تو کیا کریں؟

جواب

اگر کسی شخص نے کسی کا مال کسی بھی ناجائز طریقے سے مثلاً دھوکہ دے کر یا جھوٹ بول کر حاصل کیا ہو، تو سب سے پہلے تو اس پر لازم ہے کہ اپنے اس عمل پر صدقِ دل سے توبہ و استغفار کرے، پھر مالک کو تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے اور جتنے ذرائع ممکن ہوں، انہیں استعمال کرے، اگر وہ شخص یا اس کے ورثاء میں سے کسی کا علم ہوجائے، تو وہ رقم انہیں لوٹادے اور اگر مکمل تلاش کے باوجود اس کے یا اس کے ورثاء میں سے کسی کے بارے میں کچھ علم نہ ہو، تو اتنی رقم اس کی طرف سے اسے ثواب پہنچانے کی نیت سے صدقہ کردے اور اگر آئندہ کبھی وہ شخص مل جائے، تو اس بارے میں اطلاع کردے، اگر وہ اس صدقہ کی گئی رقم پر راضی ہو، تو ٹھیک،  ورنہ اتنی رقم اس شخص کو دے دے۔

الدر المختار میں ہے:

"(عليه ديون ومظالم ‌جهل ‌أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله) هذا مذهب أصحابنا لا تعلم بينهم خلافا كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها اعتبارا للديون بالأعيان (و) متى فعل ذلك (سقط عنه المطالبة) من أصحاب الديون."

وفي الرد تحته:

"(قوله: ‌جهل ‌أربابها) يشمل ورثتهم، فلو علمهم لزمه الدفع إليهم؛ لأن الدين صار حقهم. وفي الفصول العلامية: من له على آخر دين فطلبه ولم يعطه فمات رب الدين لم تبق له خصومة في الآخرة عند أكثر المشايخ؛ لأنها بسبب الدين وقد انتقل إلى الورثة. والمختار أن الخصومة في الظلم بالمنع للميت، وفي الدين للوارث. قال محمد بن الفضل: من تناول مال غيره بغير إذنه ثم رد البدل على وارثه بعد موته برئ عن الدين وبقي حق الميت لظلمه إياه، ولا يبرأ عنه إلا بالتوبة والاستغفار والدعاء له. اهـ. (قوله: فعليه التصدق بقدرها من ماله) أي الخاص به أو المتحصل من المظالم. اهـ. ط وهذا إن كان له مال. وفي الفصول العلامية: لو لم يقدر على الأداء لفقره أو لنسيانه أو لعدم قدرته قال شداد والناطفي رحمهما الله تعالى: لا يؤاخذ به في الآخرة إذا كان الدين ثمن متاع أو قرضا، وإن كان غصبا يؤاخذ به في الآخرة، وإن نسي غصبه، وإن علم الوارث دين مورثه والدين غصب أو غيره فعليه أن يقضيه من التركة، وإن لم يقض فهو مؤاخذ به في الآخرة، وإن لم يجد المديون ولا وارثه صاحب الدين ولا وارثه فتصدق المديون أو وارثه عن صاحب الدين برئ في الآخرة.

مطلب فيمن عليه ديون ومظالم ‌جهل ‌أربابها (قوله: كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها) يشمل ما إذا كانت لقطة علم حكمها، وإن كانت غيرها فالظاهر وجوب التصدق بأعيانها أيضا (قوله: سقط عنه المطالبة إلخ) كأنه والله تعالى أعلم؛ لأنه بمنزلة المال الضائع والفقراء مصرفه عند جهل أربابه، وبالتوبة يسقط إثم الإقدام على الظلم ط."

(كتاب اللقطة، ج:4، ص:283، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408101200

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں