بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی قوم کے غرباء پر وقف کیا اوراب ان غرباء میں سے کوئی باقی نہیں رہا تو وقف کا کیا حکم ہے؟


سوال

کسی شخص نے اپنے جائیداد کو کسی قوم کے غریبوں کے لیے وقف کیا لیکن ابھی اس کے قوم میں کوئی غریب باقی نہیں رہا تو عرض یہ ہے کہ وقف کے پیسوں کو دوسری قوموں کے غریبوں پر تقسیم کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ مدلل جواب مرحمت فرمائیں شکریہ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں واقعۃ اگر مذکورہ قوم کے غرباء میں سے کوئی بھی غریب باقی نہیں رہا،تو موقوفہ جائیداد  کی آمدنی کو دوسرے  غرباء پرخرچ کرنا جائز ہوگا ۔

المحیط البرھانی میں ہے :

"ولو قال: أرضي هذه صدقة موقوفة على زيد وخالد وعمرو، يبدأ بزيد فيكون غلة هذه الصدقة له أبداً ما عاش، ثم لعمرو فيكون غلة هذه الصدقة له أبداً ما عاش ينفد ذلك على ما ذكر من تقديم بعضهم، فإذا ‌انقرضوا كانت الغلة للفقراء والله أعلم."

(كتاب الوقف،‌‌الفصل الرابع: فيما يتعلق بالشروط في الوقف،ج:6،ص:129،ط:دارالكتب العلمية)

النہرالفائق  شرح کنزالدقائق میں ہے :

"لو وقف على ولده وولد ولده ونسلهم أبداً يصح ۔۔۔ فإذا ‌انقرضوا كانت للفقراء."

(كتاب الوقف ،ج:3،ص:315 ،ط:دارالكتب العلمية)

فتاویٰ دارالعلوم دیوبندمیں ہے :

"وقف کا مصرف ختم ہو گیا تو جمع شدہ آمدنی کہاں خرچ کرے ؟

ایک مسماۃ نے اپنی جائیداد ایک اسکول کے لیے وقف کی وہ اسکول بند ہو گیا ،تو اس کی جو آمدنی جمع ہے ،وہ واقفہ کی ملک میں آسکتی  ہے ؟تا کہ دوسرے کارِ خیر میں صرف کرے ۔

الجواب :اس صورت میں وہ جمع شدہ آمدنی اور وہ جائیداد واقفہ کی ملک میں نهیں آ سکتی البتہ جب کہ مدرسہ مذکورہ میں ضرورت نہیں تو اس آمدنی کا دوسرے مصرف خیر میں صرف کرنا درست ہے ۔لیکن واقف کی غرض کا ملحوظ رکھنا ضروری امر ہے ،لہذا اس آمدنی کو دینیات میں ہی صرف کرنا چاہیے ۔(مراعاۃ غرض الواقفین واجبة۔شامي)"

(وقف کا بیان ،ج:13،ص:160 ،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507100456

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں