زید کو سفر کرنا تھااور زید اپنے گھر سے اپنی بہن کے گھر گیا جو تقریباً 35 کلو میٹر پر ہے، پھر وہاں سے اپنا اصل سفر شروع کیا جو کہ شرعی مسافت کا تھا تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید اپنی بہن کے گھر پر اتمام کرےگا یا قصر نماز پڑھے گا؟
صورتِ مسئولہ میں زید اگر اپنے گھر سے اپنی بہن کے گھر ہوتے ہوئے آگے شرعی سفر کے ارادے سے ہی نکلا تھا،نیز بہن کا گھر زید کے اپنے علاقے کی آبادی کے بعد تھا تو زید اپنی بہن کے گھر قصر کرے گا،لیکن اگر بہن کے گھر جاتے ہوئے آگے سفر کا ارادہ نہیں تھا،یا بہن کے گھر سے آگے کی منزل میں دوبارہ اپنا گھر پڑتا ہو تو ایسی صورت میں بہن کے گھر میں قصر نماز ادا نہیں کی جائے گی۔
رد المحتار میں ہے :
"(قاصدا) ولو كافرا، ومن طاف الدنيا بلا قصد لم يقصر (مسيرة ثلاثة أيام ولياليها)."
"(قوله قاصدا) أشار به مع قوله خرج إلى أنه لو خرج ولم يقصد أو قصد ولم يخرج لا يكون مسافرا،(قوله بلا قصد) بأن قصد بلدة بينه وبينها يومان للإقامة بها فلما بلغها بدا له أن يذهب إلى بلدة بينه وبينها يومان وهلم جرا."
(کتاب الصلوة،باب صلاة المسافر،ج2،ص122،ط:دار الكتب العلمية)
فتاوی عالم گیری میں ہے:
"وإذا دخل المسافر مصره أتم الصلاة وإن لم ينو الإقامة فيه سواء دخله بنية الاختيار أو دخله لقضاء الحاجة، كذا في الجوهرة النيرة."
(كتاب الصلاة،الباب الخامس عشر في صلاة المسافر،ج1،ص142،ط:رشیدیہ)
فتاوٰی ہندیہ میں ہے:
"وتعتبر المدة من أي طريق أخذ فيه، كذا في البحر الرائق فإذا قصد بلدة وإلى مقصده طريقان أحدهما مسيرة ثلاثة أيام ولياليها والآخر دونها فسلك الطريق الأبعد كان مسافرا عندنا، هكذا في فتاوى قاضي خان، وإن سلك الأقصر يتم، كذا في البحر الرائق."
(كتاب الصلاة،الباب الخامس عشر في صلاة المسافر،ج1،ص138،ط:رشیدیہ)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144406101197
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن