بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پرانی قبر کو اسکول کی توسیع کی وجہ سے ختم کرنا/ مٹانا


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ:

ہمارے یہاں تقریباً دو سو تین سو  سال پرانی  قبر  ہے  جو کسی پیر کی ہے،  جہاں اب لوگ اسکول کی توسیع کرنا چاہ رہے ہیں، اس  قبر  کے بیچ میں آنے کی وجہ سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی چار دیواری کر دی جاۓ ،تو کہی ایسا نہ ہو کہ آگے جاکے لوگ اسے شرک کا ذریعہ بنالیں۔
اس  لیے دریافت یہ کرنا ہے کہ اس پیر کی قبر کی چار دیواری کر دی جاۓ یا اس پر مٹی ڈال کر اسے یوں ہی چھوڑ دیا جائے یا اور کوئی صورت  کا اختیار کی جائے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں   شریعت کا حکم یہ ہے کہ  اگر  یہ قبر  موقوفہ  زمین میں ہو،کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو تو اس کی زمین پر کسی کے لیے ملکیتی تصرف کرنا شرعاً جائز نہیں،چاہے  اسکول کی توسیع کی صورت میں ہو،یا کوئی اور تصرف، اور اگر قبر کے نشانات مٹ چکے ہوں ،اور اس میں مدفون میت  مٹی بن چکی ہو، تو اس میں دوسری میت کی تدفین کی جائے اور اگر تدفین کی حاجت نہیں رہی تو اس زمین کو کسی ایسے مصرف میں استعمال کیا جائے جو وقف ہی ہو، مثلاً: مدرسہ، مسجد، عیدگاہ یا جنازہ گاہ وغیرہ بناکر وقف کردیا جائے، نیز اگرمذکورہ  قبرستان کے وقف ہونے کا کوئی واضح ثبوت نہ ہو تو عام اَموات کا اس میں بلا روک ٹوک دفن ہوتے رہنا ہی اس کے وقف ہونے کا قرینہ قرار دیا جائے گا۔

اور اگر قبرستان کی زمین کسی کی ذاتی ملکیت ہو  ،اور اس کی اجازت سے میت دفن کی گئی ہو، لیکن قبر کے نشانات مٹ چکے ہوں، اور اس میں دفن  مذکورہ میت مٹی بن چکی ہو تو اس پر مالک زمین  کی اجازت سے اسکول کی تعمیر وتوسیع کرناجائز ہے۔

البتہ اگر مذکورہ پیر کی قبر سے آگے چل کر شرک وبدعات پھیلنے کا قوی امکان ہے ،تو اس قبر کو برابر کر کے استعمال میں لانا ہی زیادہ بہتر ہے ۔

خیر الفتاویٰ میں ذاتی زمين سے متعلق لكھا ہے :

"اور قبریں جب کہ بالکل بے نشان ہو  جائیں ،اور میت بھی ان میں گل سڑ کر مٹی ہو گئی ہو ،تو پھر وہاں دوسری قبر نکالنا اور مکان بنانااور زراعت کرنا جائز ہے ۔

(کتاب الجنائز ،ج:3،ص:314،ط:مکتب امدادیہ)

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے:

(سوال)ایک قبر کھودی گئی اس میں سے مردہ کی ہڈیاں نکلیں ،اس میں نیا مردہ دفن کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

(الجواب)ہڈیوں کو ایک طرف کر کے جدید میت کو اس میں دفن کرنا درست ہے ۔"

(کتاب الجنائز ،ج:5،ص:258 ،ط:دارالاشاعت)

وفیہ ایضا:

"بزرگ کی قبر پر پختہ چار دیواری بنانے کا حکم:

(الجواب)قبر پر پختہ چار دیواری بنانا درست نہیں ،اور یہ خیال صحیح ہے کہ رفتہ رفتہ کچھ بدعات وہاں ہونے لگیں گی ،اور بانی کو بھی اس کا گناہ ملے گا۔"

(کتاب الجنائز ،ج:5،ص:275 ،ط:دارالاشاعت)

وفي الفتاوى الهندية :

"ولو بلى الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه ‌والبناء ‌عليه، كذا في التبيين۔"

(كتاب الصلوة ،فصل في الشهيد ،ج:1،ص:167 ،ط:دارالفكر)

وفي الشامية:

" وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار تراباً جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اهـ  قال في الإمداد ويخالفه ما في التاترخانية: إذا صار الميت تراباً في القبر يكره دفن غيره في قبره؛ لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية، ثم دفن غيره فيه تبركاً بالجيران الصالحين ويوجد موضع فارغ يكره ذلك اهـ قلت: لكن في هذا مشقة عظيمة، فالأولى إناطة الجواز بالبلاء إذا لايمكن أن يعد لكل ميت قبر لايدفن فيه غيره وإن صار الأول تراباً، لا سيما في الأمصار الكبيرة الجامعة، وإلا لزم أن تعم القبول السهل والوعر على أن المنع من الحفر إلى أن لايبقى عظم عسر جداً وإن أمكن ذلك لبعض الناس لكن الكلام في جعله حكماً عاماً لكل أحد، فتأمل".

(كتاب الصلوة،باب صلوة الجنازة،2 / 233،ط:سعيد)

 وفي عمدة القاري شرح صحيح البخاري :

"فإن قلت: هل يجوز أن تبنى على قبور المسلمين؟ قلت: قال ابن القاسم: لو أن مقبرة من مقابر المسلمين عفت فبنى قوم عليها مسجداً لم أر بذلك بأساً، وذلك؛ لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمين لدفن موتاهم لايجوز لأحد أن يملكها، فإذا درست واستغنى عن الدفن فيها جاز صرفها إلى المسجد؛ لأن المسجد أيضاً وقف من أوقاف المسلمين لايجوز تملكه لأحد".

 (باب الصلاة في مرابض الغنم،ج:4،ص:179،ط:دارإحياء التراث العربي)

وفي المصنف لابن ابي شيبة :

"عن نافع، قال: بلغ عمر بن الخطاب أن ناسا يأتون الشجرة التي بويع تحتها، قال: «فأمر بها ‌فقطعت."

(‌‌في الصلاة عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم وإتيانه،ج:2،ص:150،ط:دارالتاج)

وفي اقتضاء صراط المستقيم لابن تيميه الحراني ؒ:

"وأمر عمر رضي الله عنه بقطع الشجرة التي توهموا أنها الشجرة التي ‌بويع الصحابة تحتها بيعة الرضوان. لما رأى الناس ينتابونها ، ويصلون عندها، كأنها المسجد الحرام، أو مسجد المدينة، وكذلك لما رآهم قد عكفوا على مكان قد صلى فيه النبي صلى الله عليه وسلم عكوفا عاما نهاهم عن ذلك، وقال: "أتريدون أن تتخذوا آثار أنبيائكم مساجد؟ ". أو كما قال رضي الله عنه۔"

(أنواع الأعياد الزمانية المبتدعة،ج:2۔ص:144،ط:دارعالم الكتب)

کفایت المفتی میں ہے:

’’مسجد کی طرح قبرستان میں بھی عام اموات کا بلاروک ٹوک دفن ہونا اس کے وقف ہونے کے لیے کافی ہے‘‘۔

( کتاب الوقف7/ 212 ،چھٹا باب،ط:دارالاشاعت کراچی)

امدادالفتاوی میں ہے:

’’الجواب: عام قبرستان وقف ہوتا ہے اور سوا اللہ جل شانہ کے کوئی اس کا مالک نہیں ہوتا اور جب وقف ہوا تو متولی بحیثیت قبضہ اس کا مالک نہیں بن سکتا اور اس میں کوئی تصرف مالکانہ بیع و شراء وغیرہ نہیں کرسکتا۔۔۔‘‘الخ

(کتاب الوقف،2/ 570،ط:دارالعلوم کراچي)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144503101582

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں