بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کو باہر ملک بھیجنے کے اخراجات اٹھا کر اس کی آمدن میں سے ماہانہ مخصوص فی صد لینے کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص دوسرے شخص کا بیرون ملک جانے کا تمام خرچ اس شرط پر برداشت کرے کہ وہاں جاکر وہ شخص ایک متعینہ مدت تک محنت مزدوری کرکے جو بھی کمائے گا تو اس کمائی کا کچھ فیصد حصہ خرچ برداشت کرنے والے کو ادا کرتا رہے گا ،تو کیا یہ صورت جائز ہے؟ نیز اس کی معاشرتی و اخلاقی قباحت بھی بیان کردیں۔

جواب

واضح رہے کہ جو شخص کسی دوسرے شخص کو بیرون ملک لے جانے کا خرچہ  اٹھاتا ہے، تو اگر قرض کی صراحت نہیں کی گئی ہو تو یہ تبرع شمار ہوگا ، اور اگر قرض کی صراحت کی ہو تو یہ قرض شمار ہوگا، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خرچ بیرونِ ملک لے جانے والے کی جانب سے قرض شمار ہوگا، اور قرض پر اضافی رقم لینا یا نفع اٹھانا سود کے زمرے میں آتا ہے جو ناجائز اور حرام ہے، لہذا اگر بیرون ملک جانے والے پر یہ شرط لگائی جائے کہ مذکورہ خرچے کی رقم قسطوں میں اپنی کمائی سے فی صد کے اعتبار سے ادا کرے گا، اور جب خرچے  (قرض) کی رقم وصول  ہوجائے تو مزید کچھ بھی وصول نہیں کیا جائے گا تو یہ صورت جائز ہے، البتہ اگر ہمیشہ کے لیے یعنی قرض وصول  ہونے کے بعد بھی فی صد کے اعتبار سے وصول کرنے کا شرط ہو تو یہ صورت ناجائز ہے۔

مرقاۃ المفاتیح  میں  ہے:‌‌

"و عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: «‌إذا ‌أقرض ‌أحدكم ‌قرضًا فأهدي إليه أو حمله على الدابة فلايركبه و لايقبلها إلا أن يكون جرى بينه و بينه قبل ذلك» ... (قبل ذلك) أي الإقراض لما ورد " كلّ قرض جرّ نفعًا فهو ربا". قال مالك: لاتقبل هدية المديون ما لم يكن مثلها قبل أو حدث موجب لها."

(كتاب البيوع، باب الربا، الفصل الثالث، ج:6، ص:69، ط:مكتبة امداديه)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(أما) ركنه فهو الإيجاب، و القبول، و الإيجاب قول المقرض: أقرضتك هذا الشيء، أو خذ هذا الشيء قرضًا، و نحو ذلك، و القبول هو أن يقول المستقرض: استقرضت، أو قبلت، أو رضيت، أو ما يجري هذا المجرى."

(كتاب القرض، ركن القرض، ج:7، ص:394، ط:دار الكتب العلمية)

وفيه يضاً:

"فتعين أن يكون الواجب فيه رد المثل ... (و أما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لايكون فيه جرّ منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة على أن يرد عليه صحاحًا أو أقرضه و شرط شرطًا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن قرض جرّ نفعًا»؛ و لأنّ الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لايقابله عوض، و التحرز عن حقيقة الربا و عن شبهة الربا واجب، هذا إذا كانت الزيادة مشروطةً في القرض."

(كتاب القرض، فصل في شرائط ركن القرض، ج:7، ص:395، ط:سعيد)

درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے:

"أنّ الديون تقضى بأمثالها."

(الكتاب الرابع عشر الدعوى، (المادة 1613) الدعوى هي طلب أحد حقه من آخر في حضور القاضي، ج:2 ص:261، ط: دار إحياء الكتب العربية)

شرح المجلہ میں ہے:

"کل یتصرف في ملکه کیف شاء".

(مادہ:1192،  الفصل الأول في بیان بعض قواعد في أحکام الأملاك، ج:4، ص:132، ط: رشیدیة)

فتاوی  شامی میں ہے:

"فإن الديون تقضى بأمثالها فيثبت للمديون بذمة الدائن مثل ما للدائن بذمته فيلتقيان قصاصًا."

(كتاب الرهن، ‌‌فصل في مسائل متفرقة، ج:6، ص:525، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502102179

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں