بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی عورت سے زنا کرنا


سوال

کسی عورت سے زنا کرناکا کیا حکم ہے؟

جواب

’’زنا‘‘ کبیرہ گناہوں میں سے سخت ترین گناہ ہےقرآن و حدیث میں زنا کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے اور زنا کرنے والوں کے بارے میں سخت وعیدیں نازل ہوئی ہیں جس لڑکے یا لڑکی سے زنا جیسا گناہ سرزد ہو جائے اُس پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ سے صدقِ دل سے توبہ و استغفار کرے، اور اگر  کسی لڑکے یا لڑکی  پر  زنا کرنا  شرعی طریق پر ثابت ہوجائے تو زنا کی جو شرعی سز ا (حد) مقرر ہے وہ لازم ہوگی، اورغیرشادی شدہ لڑکے اور لڑکی اگر زنا کر لیں تو زنا کی شرعی حد یہ ہے کہ   اس کو سوکوڑے مارے جائیں، قتل کرنا اس کی حد نہیں ہے، اس لیے قتل کرنا جائز نہیں ہوگا۔

پھر زنا کا ثبوت دو طریقوں سے ہوسکتا ہے،  یا تو چار گواہ   واضح طور پر لڑکے اور لڑکی کو زنا میں مبتلا دیکھنے  کی گواہی دیں   اور گواہوں پر شرعی جرح کے بعد زنا کا ثبوت ہوجائے یا زنا کرنے والا خود  چار مرتبہ اقرار کر لے اور حد قائم ہونے سے پہلے اس سے رجوع نہ کرے،  ان  دونوں طریقوں میں سے اگر کسی ایک طریقے سے زنا ثابت ہو جائے تو حکومتِ  وقت کی جانب سے حدِ زنا جاری کی جائے گی، ہر کس و ناکس کو حدود جاری کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، حکومتِ وقت ہی حدود کے جاری کرنے کی مجاز  ہے۔

مسند بزار میں ہے:

"عن عبد الله بن بريدة، عن أبيه، رضي الله عنه: إن السماوات السبع والأرضين السبع والجبال ليلعن الشيخ الزاني، وإن فروج الزناة لتؤذي أهل النار بنتن ريحها."

(مسند بریدۃ بن الحصیب رضی اللہ عنه  جلد ۱۰ ص : ۳۱۰ ط : مکتبة العلوم و الحکم ۔ المدینة المنورۃ)

ترجمہ:"ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں شادی شدہ زنا کار پر لعنت کرتی ہیں اور جہنم میں ایسے لوگوں کی شرم گاہوں سے ایسی سخت بدبو پھیلے گی جس سے اہلِ جہنم بھی پریشان ہوں گے اور آگ کے عذاب کے ساتھ ان کی رسوائی جہنم میں ہوتی رہے گی۔"

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌لا ‌يزني ‌الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن ولا ينتهب نهبة ذات شرف يرفع الناس إليه أبصارهم فيها حين ينتهبها وهو مؤمن ولا يغل أحدكم حين يغل وهو مؤمن فإياكم إياكم»."

(کتاب الایمان ، باب الکبائر و علامات النفاق جلد ۱ ص : ۲۳ ط : دار المکتب الاسلامي ۔ بیروت)

ترجمہ:"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا شراب پینے والا جب شراب پیتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا اور چھینا جھپٹی کرتا ہے اورلوگ اس کو (کھلم کھلا) چھینا جھپٹی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں (لیکن خوف و دہشت کے مارے بے بس ہوجاتے ہیں اور چیخ و پکار کے علاوہ اس کا کچھ نہیں بگاڑتے تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا پس تم (ان گناہوں سے) بچو۔"

مسند احمد میں ہے:

"عن ‌أبي ‌أمامة قال: إن فتى شابا أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، ائذن لي بالزنا، فأقبل القوم عليه فزجروه وقالوا: مه. مه. فقال: " ادنه، فدنا منه قريبا ". قال: فجلس قال: " أتحبه لأمك؟ " قال: لا. والله جعلني الله فداءك. قال: " ولا الناس يحبونه لأمهاتهم ". قال: " أفتحبه لابنتك؟ " قال: لا. والله يا رسول الله جعلني الله فداءك قال: " ولا الناس يحبونه لبناتهم ". قال: " أفتحبه لأختك؟ " قال: لا. والله جعلني الله فداءك. قال: " ولا الناس يحبونه لأخواتهم ". قال: " أفتحبه لعمتك؟ " قال: لا. والله جعلني الله فداءك. قال: " ولا الناس يحبونه لعماتهم ". قال: " أفتحبه لخالتك؟ " قال: لا. والله جعلني الله فداءك. قال: " ولا الناس يحبونه لخالاتهم ". قال: فوضع يده عليه وقال: " اللهم اغفر ذنبه وطهر قلبه، وحصن فرجه " قال  : فلم يكن بعد ذلك الفتى يلتفت إلى شيء."

(حدیث امامة الباهلی جلد ۳۶ ص : ۵٤٥ ط : مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:" حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ و سلم مجھے زنا کرنے کی اجازت دے  دیجیے!   لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اُسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا: میرے قریب آجاؤ!  وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب جا کر بیٹھ گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے پوچھا:  کیا تم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کو پسند کروگے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں!  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے۔  پھر دریافت فرمایا: کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں!  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند نہیں کرتے۔ پھر پوچھا: کیا تم اپنی بہن کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا:  اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں!  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لیے پسند نہیں کرتے۔  پھر پوچھا: کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں!  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند نہیں کرتے۔  پھر پوچھا: کیا تم اپنی خالہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں!  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے لیے پسند نہیں کرتے۔  پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا دستِ مبارک اس کے جسم پر رکھا اور دعا کی کہ:  ”اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کو پاک فرما اور اس کی شرم گاہ کی حفاظت فرما!“ ، راوی کہتے ہیں: اس کے بعد اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔"

در المختار میں ہے:

"(ويثبت بشهادة أربعة) رجال (في مجلس واحد) فلو جاءوا متفرقين حدوا (ب) لفظ (الزنا لا) مجرد لفظ (الوطء والجماع) وظاهر الدرر أن ما يفيد معنى الزنا يقوم مقامه (ولو) كان (الزوج أحدهم إذا لم يكن) الزوج (قذفها) ولم يشهد بزناها بولده للتهمة لأنه يدفع اللعان عن نفسه في الأولى ويسقط نصف المهر لو قبل الدخول أو نفقة العدة لو بعده في الثانية ظهيرية (فيسألهم الإمام عنه ما هو) أي عن ذاته وهو الإيلاج عيني (وكيف هو وأين هو ومتى زنى وبمن زنى) لجواز كونه مكرها أو بدار الحرب أو في صباه أو بأمة ابنه، فيستقصي القاضي احتيالا للدرء (فإن بينوه وقالوا رأيناه وطئها في فرجها كالميل في المكحلة) هو زيادة بيان احتيالا للدرء (وعدلوا سرا وعلنا) إذا لم يعلم بحالهم (حكم به) وجوبا."

(کتاب الحدود جلد ۴ ص : ۷ ، ۸ ط : دار الفکر)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144311100778

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں