بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی نامعلوم شخص کا کبوتر خود اڑ کرکبوتروں کے ساتھ گھر آجائے تو اس کا حکم


سوال

اگر کسی نامعلوم شخص کا کبوتر خود کے پالے ہوئے کبوتروں کے ساتھ گھر آجائے، اور واپس نہ جائے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟  اسے آکر روک لیا جایے، تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

۱) صورت مسئولہ میں اگر کسی دوسرے شخص  کا کبوتر خود ہی   اڑ  کر کبوتروں میں شامل ہوجائے ،تو  مالک  معلوم کرکے  واپس کرنا ضروری  ہے،کبوتر  کو  اس کے مالک تک پہنچانے کے لیے اس کی حتی الوسع تشہیر کرنا لازم ہے،لیکن اگر کافی کوشش کے بعد غالب گمان ہوجائے کہ اب اس کے مالک کا علم نہیں ہوسکتا،اورتشہیر کے باوجود مالک کا پتا نہ لگے تو اس کو محفوظ  رکھے،  تاکہ مالک کے آجانے کی صورت میں مشکل پیش نہ آئے، اور  حتی الوسع تشہیر کے ذرائع استعمال کرنے کے باوجود اگر مالک ملنے سے مایوسی ہوجائے ،تو یہ صورت بھی جائز ہے، کہ مالک ہی کی طرف سے کسی  فقیر کو صدقہ کردے، اور اگر خود زکاۃ کا مستحق ہے تو خود بھی استعمال کرسکتاہے،البتہ صدقہ کرنے یاخود استعمال کرنے کے بعد مالک آجاتاہے، تواسے  اپنے کبوتر / اس کی رقم کے مطالبے کا  اختیار حاصل ہوگا۔ 

۲) لیکن کسی شخص کے  کبوتر  کو از خود روکنا ناجائز اور حرام ہے،یہ چوری کے مترادف ہے، اس سے احترازکرنا ضروری  ہے۔

 حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

"إن في الحديث دلالةً على جواز إمساك الطير في القفص ونحوه، ويجب على من حبس حيواناً من الحيوانات أن يحسن إليه ويطعمه ما يحتاجه لقول النبي صلى الله عليه وسلم".

(عسقلاني، فتح الباري، 10: 584، دار المعرفة بيروت)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے :

" وقال الإمام الأجل أبو بكر محمد بن أبي سهل السرخسي: " ليس في هذا تقدير لازم بل يفوض إلى رأي الملتقط يعرف إلى أن يغلب على رأيه أن صاحبه لا يطلبه بعد ذلك فبعد ذلك إن جاء صاحبها دفعها إليه وإن لم يجئ فهو بالخيار إن شاء أمسكها حتى يجيئ صاحبها وإن شاء تصدق بها وإن تصدق ثم جاء صاحبها كان صاحبها بالخيار إن شاء أجاز الصدقة ويكون الثواب له وإن لم يجز الصدقة، فإن كانت اللقطة في يد الفقير يأخذها من الفقير وإن لم تكن قائمة كان له الخيار إن شاء ضمن الفقير، وإن شاء ضمن الملتقط، وأيهما ضمن لايرجع على صاحبه بشيء."

(کتاب اللقطة، ج:5، ص:2020، ط:دار الفكر)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"مسألة الحمام فقال في الظهيرية رجل له محصنة ‌حمام ‌اختلط بها أهلي لغيره لا ينبغي له أن يأخذه فإن أخذه طلب صاحبه ليرده عليه لأنه في معنى اللقطة."

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ،كتاب الاباق ،ج:٥، ١٧١، ط:دار الكتاب الإسلامي)

ملتقى الأبحر میں ہے :

"و للملتقط أن ينتفع باللقطة بعد التعريف لو فقيرا وإن غنيا تصدق بها ولو على أبويه أو ولده أو زوجته لو فقراء ."

(کتاب اللقطة،  الانتفاع  باللقطة، ج:1، ص:529، ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101426

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں