بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی نیک و اچھی مجلس میں مقرر کی تصویر دکھانے کے لیے اسکرین لگانے کا حکم/ جلسے کے لیے عوام سے چندہ کرنے کا حکم


سوال

ہم ہر سال ذکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و عظمت صحابہ رضی اللہ عنہ و اہلِ بیت کانفرنس کرواتے ہیں، جس میں عوام کی کثیر تعداد موجود ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ہم ایس ایم ڈی 20× 10 کی ایل سی ڈی لگواتے ہیں، تاکہ عوام کو مقرر کی تصویر نظر آئے، کیا یہ اسکرین لگانا اسراف میں شامل ہے؟

نوٹ: ہم اپنے پروگرام کے لیے عوام الناس سے چندہ اکھٹا کرتے ہیں، براہِ کرم جواب دیں۔

جواب

واضح رہے کہ ذکرِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و عظمتِ صحابہ رضی اللہ عنہ و اہلِ بیت کانفرنس کروانا درست ہے، البتہ اگر لوگ بطیبِ خاطر بغیر کسی جبر و اکراہ کے اپنی خوشی سے چندہ دیتے ہوں، تو اس صورت میں چندہ کرنا درست ہے، لیکن لوگ اگر چندہ اپنی خوشی سے نہ دیتے ہوں یا ان سے زبردستی لیا جاتا ہو، تو پھر جائز نہیں ہے۔

تاہم ایسی مبارک مجلسوں یا دیگر کسی مواقع پر جان دار یا مقرر کی تصویر اور ویڈیو دکھانے، یا پروگرام کی کوریج کے لیے اسکرین لگانا جس میں جان دار کی تصاویر  ہوں ناجائز ہے، اور ایسی چیزوں پر خرچ کرنا تبذیر کے حکم میں آئے گا، اور قرآنِ مجید میں مبذرین کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیاہے، مزید یہ کہ یہ گناہ کے کام میں معاونت کرنا ہے، جس سے قرآنِ مجید میں منع کیا گیا ہے، لہذا مقرر کی تصویر دکھانے کے لیے اسکرین لگانا جائز نہیں ہے۔

قرآنِ مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

"وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا. إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا." (الإسراء، 27،26)

ترجمہ: "اور قرابت دار کو اس کا حق دیتے رہنا اور محتاج اور مسافر کو بھی دیتے رہنا۔ اور بے موقع مت اڑانا بیشک بے موقع اڑانے والے شیطانوں کے بھائی بند ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا نا شکرا ہے۔" (بیان القرآن)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقوله تعالى: {ولا تعاونوا على الأثم والعدوان} نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(سورة المائدة، ج: 2، ص: 381، ط: دار الكتب العلمية)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لا تظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(کتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج: 1، ص: 443، رقم: 2945، ط: بشري)

تفسرِ قرطبی میں ہے:

"من أنفق درهما في حرام فهو مبذر."

(سورة الإسراء، ج: 10، ص: 248، ط: دار الكتب المصرية - القاهرة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال، لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا."

(کتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج: 1، ص: 647، ط: سعید)

الشرح الكبير للشيخ الدردير میں ہے:

"والحاصل أنه يحرم تصوير حيوان عاقل أو غيره إذا كان كامل الأعضاء إذا كان يدوم إجماعا وكذا إن لم يدم على الراجح كتصويره من نحو قشر بطيخ ويحرم النظر إليه إذ النظر إلى المحرم حرام."

(باب في النكاح وما يتعلق به، فصل الوليمة، ج: 2، ص: 338،337، ط: دار الفكر)

 مفتی شفیع صاحبؒ معارف القرآن میں تحریر فرماتے ہیں:

"کسی گناہ میں یا بالکل بے موقع بے محل خرچ کرنے کو تبذیر کہتے ہیں۔"

(سورۃ بنی اسرائیل، ج: 5، ص: 470، ط: مکتبہ معارف القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102215

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں