بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی نابالغ لڑکے کی طرف سے نابالغ گواہوں کی موجودگی میں نابالغ لڑکے اور نابالغہ لڑکی کا نکاح كروانے کا شرعی حکم


سوال

چار چھوٹے بچے جن میں ایک نابالغ لڑکی اور تین چھوٹے  نابالغ لڑکے ان میں سے ایک لڑکی کا بھائی اور دو اس کے دوست تھے، ان بچوں نے کھیل کود کے دوران آپس میں نکاح کر لیا، یعنی لڑکی کے بھائی نے پہلے نابالغ لڑکے سے پوچھا کہ تمہیں یہ میری بہن قبول ہے؟ اور پھریہی  اپنی بہن سے تین دفعہ پوچھا، دونوں نے ہاں کر دی(دونوں نے تین تین دفعہ ہاں کر دی ہے)،اب مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ کیا ان دونوں کا نکاح ہوچکا  ہے؟  کیا لڑکی کا اب کسی اور جگہ اپنے ماں باپ کی مرضی سے نکاح کرنے کے لئے اس لڑکے سے طلاق لینی ہوگی؟ جن کے ساتھ کھیل کود میں بھائی نے نکاح کروایاتھا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  نابالغ لڑکی کے بھائی نے دو نابالغ لڑکوں کی موجودگی میں نابالغ لڑکے سے پوچھا کہ تمہیں میری بہن قبول ہے؟اور پھر یہی بات اپنی نابالغ بہن سے تین دفعہ پوچھی،اور دونوں نے ہاں کردی ،تو یہ نکاح منعقد نہیں ہوا، کیوں کہ نابالغ کے ایجاب و قبول سے  نکاح منعقد نہیں ہوتا،لہذا مذکورہ لڑکی کا نکاح دوسری جگہ کرنا جائز ہے، طلاق وغیرہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما شرائط ثبوت هذه الولاية فمنها: عقل المالك، ومنها بلوغه، فلا يجوز الإنكاح من المجنون والصبي الذي لا يعقل ولا من الصبي العاقل؛ لأن هؤلاء ليسوا من أهل الولاية؛ لأن أهلية الولاية بالقدرة على تحصيل النظر في حق المولى عليه، وذلك بكمال الرأي والعقل ولم يوجد ألا ترى أنه لا ولاية لهم على أنفسهم فكيف يكون على غيرهم؟"

(كتاب النكاح، فصل بيان شرائط الجواز والنفاذ، ج:2، ص:237، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما شروطه) فمنها العقل والبلوغ والحرية في العاقد إلا أن الأول شرط الانعقاد فلا ينعقد نكاح المجنون والصبي الذي لا يعقل والأخيران شرطا النفاذ؛ فإن نكاح الصبي العاقل يتوقف نفاذه على إجازة وليه هكذا في البدائع.

(ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح هكذا في البدائع وشرط في الشاهد أربعة أمور: الحرية والعقل والبلوغ والإسلام. فلا ينعقد بحضرة العبيد ولا فرق بين القن والمدبر والمكاتب ولا بحضرة المجانين والصبيان."

(كتاب النكاح، الباب الأول، ج:1، ص:267، ط:دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان شرائط الجواز والنفاذ فأنواع منها:

أن يكون العاقد بالغا فإن نكاح الصبي العاقل وإن كان منعقدا على أصل أصحابنا فهو غير نافذ، بل نفاذه يتوقف على إجازة وليه؛ لأن نفاذ التصرف لاشتماله على وجه المصلحة والصبي لقلة تأمله لاشتغاله باللهو واللعب لا يقف على ذلك فلا ينفذ تصرفه، بل يتوقف على إجازة وليه، فلا يتوقف على بلوغه حتى لو بلغ قبل أن يجيزه الولي لا ينفذ بالبلوغ؛ لأن العقد انعقد موقوفا على إجازة الولي ورضاه، لسقوط اعتبار رضا الصبي شرعا، وبالبلوغ زالت ولاية الولي فلا ينفذ ما لم يجزه بنفسه، وعند الشافعي: لا تنعقد تصرفات الصبي أصلا بل هي باطلة."

(كتاب النكاح، فصل بيان شرائط الجواز والنفاذ، ج:2، ص:233، ط:دار الكتب العلمية)

فتح القدیر میں ہے:

"ولا بد من اعتبار العقل والبلوغ، لأنه لا ولاية بدونهما.

(قوله لعدم الولاية) يعني القاصرة وهي ولايته على نفسه لا التامة وهي نفاذ القول على الغير لأن تلك يحتاج إليها الأداء، وهذا تعليل لعدم صحة شهادة الصبي والعبد والمجنون في باب النكاح."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:200، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101585

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں