بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی مسلمان کے اپنے قادیانی گھروالوں کے ساتھ اور اعزہ اقارب کے ساتھ ہدایت کے واسطے حسنِ اخلاق سے پیش آنے اور ان کے ساتھ کھانے پینے کا حکم


سوال

میرے ایک عزیز نے اپنی تعلیم کے دوران ایک قادیانی لڑکی کو اسلام کی طرف دعوت دی، وہ لڑکی مسلمان ہوگئی، انہوں نے شادی کرلی، ان کے دو بچے ہیں، اب وہ لڑکی چاہتی ہے کہ اپنے گھر والوں کو  اسلام کی دعوت دے تاکہ وہ مسلمان ہوجائیں، اب کیا اس لڑکی کے لیے اپنے گھروالوں سے (جو کہ قادیانی ہیں) اس نیت سے ملنا اور ملاقات کرناکہ وہ مسلمان ہوجائیں  جائز ہے یا نہیں؟اسی طرح اسی نیت سے  ان کے ساتھ کھانا پینا اور تعلقات بناناجائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ لڑکی  کے لیے اپنے قادیانی رشتہ داروں اور گھروالوں سے اس نیت سے ملنا، ملاقات کرنا اور ان کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آنا کہ وہ اسلامی اخلاق سے متاثر ہوجائیں اور ان کا دل اسلام کی طرف مائل ہوجائے جائز ہے، بشرط یہ کہ یہ لڑکی دوبارہ قادیانیت کی طرف مائل نہ ہو، البتہ قلبی تعلق اور دلی  دوستی   رکھنا کسی بھی غیر مسلم کے ساتھ جائز نہیں ہے،اسی طرح اگرقادیانیوں سے تعلقات کی وجہ سے  قادیانیت کی طرف مائل ہونے کا خطرہ ہو تب بھی ان سے ملنا اور تعلق قائم کرنا درست نہیں، تاہم تبلیغ کی نیت سے بھی قادیانیوں کے ساتھ کھانا پینا اور تعلقات سے اجتناب بہتر ہے، ساتھ کھائے پیئے اور تعلقات قائم کیے بغیر تبلیغ کی جائے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"﴿ لَايَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقَاةً وَّيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّٰهِ الْمَصِيرُ﴾."[آل عمران:28]

ترجمہ:’’ مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کو (ظاہراً یا باطناً) دوست نہ بناویں  مسلمانوں (کی دوستی) سے تجاوز کرکے ، اور جو شخص ایسا (کام) کرے گا سو وہ شخص اللہ کے ساتھ (دوستی رکھنے کے) کسی شمار میں نہیں، مگر ایسی صورت میں کہ تم ان سے کسی قسم کا (قوی) اندیشہ رکھتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘‘۔ 

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’’ کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں: موالات یعنی دوستی۔ مدارات: یعنی ظاہری خوش خلقی۔ مواساۃ:  یعنی احسان و نفع رسانی۔

موالات تو کسی حال میں جائز نہیں۔ اور مدرات تین حالتوں میں درست ہے:  ایک دفعِ ضرر کے واسطے، دوسرے اس کافر کی مصلحتِ دینی یعنی توقعِ ہدایت کے واسطے، تیسرے اکرامِ ضیف کے لیے، اور اپنی مصلحت و منفعتِ مال و جان کے لیے درست نہیں۔ اور مواسات کا حکم یہ ہے کہ اہلِ حرب کے ساتھ ناجائز ہے اور غیر اہلِ حرب کے ساتھ جائز‘‘۔ (بیان القرآن)

درالمختار  میں ہے:

"(فسؤر ‌آدمي ‌مطلقا) ولو جنبا أو كافرا أو امرأة".

وفی حاشیتہ لابنِ عابدین:

"قوله أو كافرا)؛ لأنه - عليه الصلاة والسلام - ‌أنزل ‌بعض ‌المشركين في المسجد على ما في الصحيحين، فالمراد بقوله تعالى {إنما المشركون نجس} [التوبة: 28] النجاسة في اعتقادهم بحر".

(کتاب الطهارة، باب المياه، فصل في البئر، ج:1، ص:222، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405100625

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں