بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی مسلمان پر جھوٹا الزام لگانا


سوال

کسی دوسرے مسلمان پر غلط الزام لگانا اور اس کو گالیاں بھی نکالنا اس کی عزت کو مجروح کرنا لوگوں کے سامنے کیسا ہے؟ اس بارے میں میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب

کسی پر بے جا تہمت اور بہتان لگانا شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب میں بے گناہ مؤمنین اور بے گناہ مؤمنات کو زبانی ایذا دینے والوں یعنی ان پر بہتان باندھنے والوں کے عمل کو صریح گناہ قرار دیاہے۔

ایک حدیث میں ارشادِ نبوی ہے: مسلمان کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو۔

ایک اور حدیث میں ہے:  جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا فسق اور کفر کہنے والے پر لوٹتا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے  وہ فرماتے ہیں : بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا  آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے، یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔

الغرض مسلمان پر بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانے پر بڑی وعیدیں آئی ہیں، اِس لیے اِس عمل سے باز آنا چاہیے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہیے؛ تاکہ آخرت میں گرفت نہ ہو۔

حوالہ جات:

  • وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا . (الاحزاب:58)
  • '' عن علي قال: البهتان على البراء أثقل من السموات. الحكيم''. (كنز العمال (3/ 802)، رقم الحدیث: 8810)
  • وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا ينبغي لصديق أن يكون ‌لعانا» . رواه مسلم.  (مشکاة المصابيح،كتاب الآداب،باب حفظ اللسان، الفصل الاول، رقم الحديث:4819)
  • ''لا یرمي رجلٌ رجلاً بالفسوق ولا یرمیه بالکفر إلا ارتدت علیه إن لم یکن صاحبه کذلک'' .  (صحیح البخاري، كتاب الادب،باب ما ینهی عن السباب واللعن،رقم الحديث:6045)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100440

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں