بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی مسلمان کو گالی دینا اور اس کی بے عزتی کرنا


سوال

میں نے جب سے دین کو اپنایا ہے اور دنیاوی  رسم و رواج اور روایات کو دینِ اسلام کی خاطر روندا  ہے، تب سے ایک نہ ایک مشکل آتی ہے، جو کہ مجھے اپنے دینِ اسلام کے بارے میں اور بھی قریب کر دیتی ہے، میں طبیعت سے غصہ اور سخت ہوں، لیکن کسی کو سمجھانا ہو، تو لہجہ ہمیشہ نرم ہوتا ہے۔

میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی میری ناموس، عزت اور گھر کے فرد کے بارے میں باتیں کرتا ہو اور وہ باتیں خون کھولنے والی ہوں، جیسے کہ میری بیوی کے بارے میں غلیظ زبان استعمال کرتا ہو، تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ اگر میں اپنی روایت کو دیکھوں، تو ان کی نسل کو ختم کرنے کی اجازت ہے، لیکن میں قیامت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خفا اور ناراض نہیں کرنا چاہتا، لہٰذا دین کے مطابق میری راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ کسی مسلمان کو گالی دینا گناہ یا بغیر کسی سبب کے اس کی بے عزتی کرنا گناہِ کبیرہ ہے اور ایک حدیث شریف میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدزبانی کرنے کو منافق کی علامت قرار دیا ہے، لہٰذا کسی بھی مسلمان کو گالی دینا یا اس کی بے عزتی کرنا جائز نہیں ہے،  صورتِ مسئولہ میں جو شخص بھی سائل کی بے عزتی کرتا ہے، یا اس کے ساتھ بدزبانی کرتا ہے یا اس کی بیوی کے بارے میں کچھ غلیظ الفاظ کہتا ہے، تو وہ شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اور  اور اگر وہ توبہ نہیں کرتا اور جسے گالی دی گئی ہو وہ معاف نہ کرے تو قیامت کے دن اللہ کے ہاں سخت سزا کا بھی مستحق ہے۔

سائل اگر اس شخص کے خلاف قانونی کاروائی کرنا چاہے، تو کرسکتا ہے، البتہ اگراس شخص کی باتوں پر صبر وتحمل کرتا رہے گا، تو  یہ اس کے لیے اجر و ثواب اور رفعِ درجات کا باعث ہوگا، نیز سائل کا  اپنی روایت سے ہٹ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے بچنے کی خاطر صبر و تحمل کرنا ایک قابلِ تعریف  امر ہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " أربع من كن فيه كان منافقا - أو كانت فيه خصلة من أربعة كانت فيه خصلة من النفاق - حتى يدعها: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا عاهد غدر، وإذا خاصم فجر."

(كتاب المظالم والغصب، ج:3، ص:131، ط:دار طوق النجاة)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌سباب ‌المسلم فسوق وقتاله كفر» . متفق عليه."

(کتاب الآداب، ج:3، ص:1356، ط:المكتب الإسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144501102416

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں