بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی مسلمان کی غیبت کرنے کا حکم


سوال

کیا امام کی غلطی پر اس کی غیبت کرنا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کسی بھی مسلمان کی غیبت کرناجائز نہیں ہے،البتہ اگرامام صاحب میں اگر واقعۃً کوئی ایسی غلطی یاخامی ہو جو شرعاً قابل اصلاح ہو تو ایسی صورت میں انہیں حکمت کے ساتھ کسی  بزرگ یا عالم سے ذکر کرکے ان کے ذریعے  ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے، امام صاحب  کی اس خامی کو بنیاد  بناکر ان کی غیبت کرنا ان کے عیب کو ظاہر کرنا شرعاً  ناجائز ہے۔غیبت کرنے والے خود گناہگار ہوں گے۔

روح المعانی للآلوسی میں ہے:

"والآية -أيحب أحدكم أن يأكل ‌لحم ‌أخيه ميتا-دالة على حرمة الغيبة. وقد نقل القرطبي وغيره الإجماع على أنها من الكبائر، وعن الغزالي وصاحب العدة أنهما صرحا بأنها من الصغائر وهو عجيب منهما لكثرة ما يدل على أنها من الكبائر، وقصارى ما قيل في وجه القول بأنها صغيرة أنه لو لم تكن كذلك يلزم فسق الناس كلهم إلا الفذ النادر منهم وهذا حرج عظيم. وتعقب بأن فشو المعصية وارتكاب جميع الناس لها فضلا عن الأكثر لا يوجب أن تكون صغيرة، وهذا الذي دل عليه الكلام من ارتكاب أكثر الناس لها لم يكن قبل. على أن الإصرار عليها قريب منها في كثرة الفشو في الناس وهو كبيرة بالإجماع."

(ج:13، ص:310، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

وفیہ ایضاً

"وقد ‌تجب ‌الغيبة لغرض صحيح شرعي لا يتوصل إليه إلا بها وتنحصر في ستة أسباب... الثاني الاستعانة على تغيير المنكر بذكره لمن يظن قدرته على إزالته"

(ج:13، ص:312، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144603101074

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں