جیسے چار فقہ ہیں حنفی حنبلی مالکی شافعی سب حق پر ہیں، لیکن یہ تو علم ہے کہ ان میں سے کسی ایک فقہ کو فالو کرنا ہے، تاکہ گڈ مڈ نا ہو، ہم دین پر صحیح عمل کر سکیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ جیسے حنفی مسلک میں اہل حق علماء کا آپس میں اختلاف ہوتا ہے تو ان میں سے جس جس ادارے یا عالم کی بات صحیح لگے عمل کر لے یا نہیں؟ کیونکہ وہ تو فقہ کی طرح نہیں نا کہ کسی ایک عالم یا کسی ایک ادارے کو فالو کریں، جیسے احناف مسلک میں دارلعلوم دیوبند انڈیا یاجامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن یا دارلعلوم کراچی یا دیگر جتنے بھی ادارے ہیں، ان میں سے کسی بھی ادارے یا عالم کی جو بات اور فتوی صحیح لگے اس پر عمل کر لیں یا ان میں سے بھی فقہ کی طرح کسی ایک کی بات پر عمل ضروری ہو گا ؟
ویسے تقریباً اکثر مسائل وغیرہ بالکل ایک جیسے ہیں، کوئی اختلاف نہیں ،صرف بعض جگہ اختلاف آجاتا ہےتو اس صورت میں احناف کے کسی ایک ادارے، مولانا یامفتی کی بات پر عمل کریں؟ یا جس کی جو بات مدلل و صحیح لگتی ہو اس پر عمل کر لیں؟
جواب سے پہلے بطور تمہید اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ موجودہ دور کے مفتیان کرام کا درجہ افتاء کیا ہے اور کس نوعیت کا ہے؟چنانچہ اہل فقہ کی تصریح کے مطابق موجودہ دور کے مفتیان حضرات کا درجہ فقہاء کرام کے سات درجاتِ میں ساتواں درجہ ہے،یعنی یہ وہ حضرات ہیں جو مسائل بتانے میں اپنے سے پہلے فقہاء کرام کے راجح اور مصحح اقوال کے تابع ہیں ،مرجوح اقوال پر فتویٰ نہیں دے سکتے،ورنہ وہ فتویٰ قابل ِقبول نہیں ہوگا۔
چنانچہ عام آدمی کی سب سے پہلی ذمہ داری تویہ ہے کہ وہ ان مفتیان حضرات سے مسائل پوچھا کرے جو علم و تقوی میں معروف ہوں اور مسائل بتانے میں تساہل،حیلہ بازی یا حیلہ جوئی کی شہرت نہ رکھتے ہوں اور بالعموم عوام اور خواص ان کے فتاوی پر اعتماد کرتے ہوں۔
پھر جب کسی مسئلہ میں مفتیانِ کرام کی آراء کا اختلاف ہو تو عام شخص کے لئے حکم یہ ہے کہ اس کو جن حضرات کے علم وتقوی پر زیادہ اعتماد ہو اور عام حالات میں بھی ان ہی کی رائے پر عمل کرتا ہو تو ان کی رائےکے مطابق عمل کرسکتا ہے، یعنی جن علماء سے وہ عموماً راہ نمائی لیتا ہے اور ان کے بیان کردہ مسائل پر اسے اعتماد ہوتاہے، ان ہی کی رائے پر اس مسئلے میں بھی عمل کرے، صرف سہولت یا خواہشِ نفس کی وجہ سے دوسرے عالم کے فتوے پر عمل نہ کرے، خواہ جواز کے قائل مفتی انتہائی متدین و متقی ہوں۔ اس معاملے میں نفسانی خواہش کی بالکل آمیزش نہ آنے دے۔
اگر دونوں طرف کے علماء میں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر علم وتقوی میں فضیلت یا فوقیت دینے سے عاجزہو سب پر یکساں اعتماد ہو تو پھر یہ دیکھے کہ جمہور اہلِ فتاوی کی کیا رائے ہے ،جمہور اہل فتاوی کی رائے معلوم کرکے ان کے فتویٰ پر عمل کرے۔
بالفرض اگر کوئی مسئلہ ایسا ہو کہ اس میں دونوں رائے کے قائلین کی تعداد یک ساں یا بہت زیادہ ہو کہ اکثر اہلِ علم کا رجحان نہ معلوم ہوسکے تو پھر اس رائے کو اختیار کرے جس میں احتیاط زیادہ ہو، مثلاً: ایک جانب وجوب کا قول ہو اور دوسری جانب استحباب کا تو وجوب والی رائے پر عمل کرے ۔ یا ایک جانب حرمت کا فتوی ہو اور دوسری جانب گنجائش کا تو حرمت والی رائے اختیار کرےگا۔
حدیث شریف میں ہے:
"وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اتبعوا السواد الأعظم فإنه من شذ شذ في النار."
(مشكاة المصابيح، كتاب الإيمان، باب الاعتصام بالكتاب والسنة، الفصل الثاني، ج: 1، ص: 62، ط: المكتب الإسلامي)
"عن عامر قال: سمعت النعمان بن بشير يقول:سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: (الحلال بين، والحرام بين، وبينهما مشبهات لا يعلمها كثير من الناس، فمن اتقى المشبها استبرأ لدينه وعرضه، ومن وقع في الشبهات: كراع يرعى حول الحمى أوشك أن يواقعه، ألا وإن لكل ملك حمى، ألا وإن حمى الله في أرضه محارمه."
(صحيح البخاري، كتاب الإيمان،باب: فضل من استبرأ لدينه، ج: 1،ص: 28، ط: دار ابن كثير)
فتاوی شامی میں ہے:
"وقد ذكروا أن المجتهد المطلق قد فقد، وأما المقيد فعلى سبع مراتب مشهورة. وأما نحن فعلينا اتباع ما رجحوه وما صححوه كما لو أفتوا في حياتهم.
فإن قلت: قد يحكون أقوالا بلا ترجيح، وقد يختلفون في الصحيح. قلت: يعمل بمثل ما عملوا من اعتبارتغير العرف وأحوال الناس، وما هو الأوفق وما ظهر عليه التعامل وما قوي وجهه، ولا يخلو الوجود عمن يميز هذا حقيقة لا ظنا، وعلى من لم يميز أن يرجع لمن يميز لبراءة ذمته، فنسأل الله تعالى التوفيق والقبول، بجاه الرسول.
مطلب في طبقات الفقهاء.
(قوله: وأما المقيد إلخ)...والسابعة: طبقة المقلدين الذين لا يقدرون على ما ذكر، ولا يفرقون بين الغث والسمين اهـ بنوع اختصار.
(قوله: وأما نحن) يعني أهل الطبقة السابعة، وهذا مع السؤال والجواب مأخوذ من تصحيح الشيخ قاسم.
(قوله: كما لو أفتوا في حياتهم) أي كما نتبعهم لو كانوا أحياء وأفتونا بذلك فإنه لا يسعنا مخالفتهم. "
(شامی،مطلب في طبقات الفقهاء ،مقدمہ،1/ 77،ط:سعید)
وفي أدب المفتي والمستفتي لإبن الصلاح:
"إذا اختلف عليه فتوى مفتيين، فللأصحاب فيه أوجه:
أحدهما: أنه يأخذ بأغلظها، فيأخذ بالحظر دون الإباحة، لأنه أحوط، ولأن الحق ثقيل.
"والثاني": يأخذ بأخفهما، لأنه صلى الله عليه وسلم: "بعث بالحنفيةالسمحة السهلة"."والثالث": يجتهد في الأوثق، فيأخذ بفتوى الأعلم الأورع كما سبق شرحه، واختاره السمعاني الكبير، ونص الشافعي على مثله في القبلة.
"والرابع": يسأل مفتيًا آخر فيعمل بفتوى من يوافقه.
"والخامس": يتخير فيأخذ بقول أيهما شاء وهو الصحيح عند الشيخ أبي إسحاق الشيرازي، واختاره صاحب "الشامل"، فيما إذا تساوى المفتيان في نفسه.
والمختار: أن عليه أن يجتهد ويبحث عن الأرجح فيعمل به فإنه حكم التعارض وقد وقع، وليس كما سبق ذكره من الترجيح المختلف فيه عند الاستفتاء، وعند هذا ليبحث عن الأوثق، من المفتيين فيعمل بفتياه، فإنه لم يترجح أحدهما عنده استفتى آخر، وعمل بفتوى من وافقه الآخر، فإن تعذر ذلك وكان اختلافهما في الحظر والإباحة، وقبل العمل، اختار جانب الحظر وترك "جانب الإباحة"، فإنه أحوط وإن تساويا من كل وجه خيرناه بينهما، وإن أبينا التخيير في غيره، لأنه ضرورة في صورة نادرة.
ثم "إنما" نخاطب بما ذكرناه المفتيين، وأما العامي الذي وقع له ذلك فحكمه أن يسأل عن ذلك ذينك المفتيين أو مفتيًا آخر، وقد أرشدنا المفتي إلى ما يجيبه به في ذلك، فهذا جامع لمحاسن الوجوه المذكورة، ومنصب في قالب التحقيق. والله أعلم.
(ص:164،الناشر:مكتبة العلوم والحكم-المدينة المنورة)
وفی آداب الفتاوی والمفتی والمستفتی للنووي:
"إذا اختلف عليه فتوى مفتيين ففيه خمسة أوجه للأصحاب :
أحدها يأخذ بأغلظهما والثاني بأخفهما والثالث يجتهد في الأولى فيأخذ بفتوى الأعلم الأورع كما سبق إيضاحه واختاره السمعاني الكبير ونص الشافعي رضي الله عنه على مثله في القبلة والرابع يسأل مفتيا آخر فيأخذ بفتوى من وافقه والخامس يتخير فيأخذ بقول أيهما شاء وهذا هو الصحيح عند الشيخ أبي إسحاق الشيرازي المصنف وعند الخطيب البغدادي ونقله المحاملي في أول المجموع عن أكثر أصحابنا واختاره صاحب الشامل فيما إذا تساوى المفتيان في نفسه .
وقال الشيخ أبو عمرو المختار أن عليه أن يبحث عن الأرجح فيعمل به فإنه حكم التعارض فيبحث عن الأوثق من المفتيين فيعمل بفتواه وإن لم يترجح عنده أحدهما استفتى آخر وعمل بفتوى من وافقه فإن تعذر ذلك وكان اختلافهما في التحريم والإباحة وقبل العمل اختار التحريم فإنه أحوط وإن تساويا من كل وجه خيرناه بينهما وإن أبينا التخيير في غيره لأنه ضرورة وفي صورة نادرة .
قال الشيخ أبو عمرو ابن الصلاح ثم إنما نخاطب بما ذكرناه المفتيين وأما العامي الذي وقع له ذلك فحكمه أن يسأل عن ذلك ذينك المفتيين أو مفتيا آخر وقد أرشدنا المفتي إلى ما يجيبه به وهذا الذي اختاره الشيخ ابن الصلاح ليس بقوي بل الأظهر أحد الأوجه الثلاثة وهي الثالث والرابع والخامس والظاهر أن الخامس أظهرها لأنه ليس من أهل الاجتهاد وإنما فرضه أن يقلد عالما أهلا لذلك وقد فعل ذلك بأخذه بقول من شاء منها والفرق بينه وبين ما نص عليه في القبلة أن أمارتها حسية فإدراك صوابها أقرب فيظهر التفاوت بين المجتهدين فيها والفتاوى أمارتها معنوية فلا يظهر كبير تفاوت بين المجتهدين والله أعلم ."
(ص:80،ط: دار الفکر)
"رد المحتار"میں ہے:
"وإذا اختلف مفتيان في جواب حادثة أخذ بقول أفقههما بعد أن يكون أورعهما سراجية وفي الملتقط وإذا أشكل عليه أمر ولا رأي له فيه شاور العلماء ونظر أحسن أقاويلهم وقضى بما رآه صوابا لا بغيره."
(ص:361،ج:5،كتاب القضاء،مطلب يفتى بقول الإمام على الإطلاق،ط:ايج ايم سعيد)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
’’سوال:بعض مسائل ایسے ہیں کہ اس میں احناف کے علماء مثلا علماء دیوبند ،سہارنپور،دہلی مختلف ہیں ،کسی کے نزدیک حلت ہے کسی کے نزدیک حرمت ہے تو کیا ایسی صورت میں جس جگہ سہولت ملے استفتاء کرسکتے ہیں یا نہیں ؟درآنحالیکہ قابل اعتماد اور دیندار ہرایک ہیں ،یعنی اتباع ہوا میں تو داخل نہیں ہے؟
جواب:جب سب اداروں پر یکساں اعتماد ہے تو محض سہولت کے لئے انتخاب کرنا کہ فلاں مسئلہ میں فلاں جگہ سے سہولت ملےگی اور فلاں مسئلہ میں فلاں جگہ سے سہولت ملےگی ،اگرکامل اتباع ہَوا نہیں تو اتباع ہوا کے قریب قریب ضرور ہے۔‘‘
(ج:3،ص:366،ط:جامعہ فاروقیہ کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100252
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن