بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 ذو القعدة 1446ھ 14 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

کسی مالی معاملے میں ایک گواہ کی گواہی شرعاً معتبر نہیں ہے ۔


سوال

تین بھائیوں نے آپس کی رضامندی  سے  اپنے والد کی زمین تقسیم کی تھی  ، کسی ایک کو بھی  کو ئی اشکال نہیں تھا،اب ان تینوں  کا انتقال ہوچکا ہے،اب ایک بھائی زمین    کی    مانگ اور ویلیو  بڑھ چکی ہےاور بتیس سال بعد ایک شخص  آکر کہتاہے  کہ میں اس تقسیم کے وقت موجود تھااور بڑے جس  وقت یہ فیصلہ کر رہیں تھے میں نے اپنی کانوں سے یہ بات  سنی تھی ،کہ"جس بھائی کو یہ زمین (جس کی  مانگ اور ویلیو  بڑھ چکی ہے)ملی تھی اس کےمتعلق  ایک دوسرے بھائی  سے یہ معاہدہ طے ہواتھا " کہ  آپ بعد میں  اپنی زمین میں آدھی مجھے دیں گے    اور میں اپنی زمین میں سے آدھی آپ کو دوں گا "اس کی وجہ    سے اب    بھائیوں کے بیٹوں کا آپس میں   جھگڑا  ہے،    سوال یہ ہے  کہ صرف  اس ایک   گواہ کی گواہی شرعاً معتبر ہے یا نہیں  ؟ اور اس گواہی کی وجہ سے بھائیوں کی آپس میں رضامندی سے ہونے والی سابقہ  تقسیم پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ   ایک  شخص کے بات کرنے"  اور یہ کہنے سے کہ میں فلاں مجلس میں موجود تھا اور اس میں یہ بات ہوئی  "سے شرعاً کوئی دعوی ثابت نہیں ہوتاہے ، بلکہ   شرعاً کسی مالی   دعوے کے ثبوت  کےلیے       دو مردوں یاایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی  یا مدعی علیہ  کی تصدیق اور اقرار ضروری  ہوتا ہے، لہذاصورت مسئولہ میں اس ایک  شخص  کے   یہ کہنے  سے " کہ دونوں  بھائیوں نے آپس میں  یہ  طے کیا تھا  کہ " آپ بعد میں   اپنی زمین میں آدھی مجھے دیں گے    اور میں اپنی زمین میں سے آدھی آپ کو دوں گا    "سے  فوت شدہ بھائیوں  کی رضامندی سے ہونے والی سابقہ   تقسیم پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور نہ ہی شرعاً  کسی دعوے کے ثابت کرنے کے لیے ایک شخص کی  بات  کا فی سمجھی جاتی ہے تا ہم جس بھائی  کی زمین کی  قیمت بڑھ چکی ہےاگر   ان کے بیٹوں میں سے کسی کو اس معاہدے    کے بارے میں علم ہو تو   زمینوں کی تبدیلی  کرنا  تب بھی شرعاً ضروری نہیں ہے ،تاہم    معاہدے کا علم ہوتے ہوئے  زمینوں کی تبدیلی اپنے والد  مرحوم کی طرف سے     وعدہ پورا کرنے کی وجہ     سے بہتر ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ومنها الشهادة بغير الحدود والقصاص وما يطلع عليه الرجال وشرط فيها شهادة رجلين، أو رجل وامرأتين سواء كان الحق مالا، أو غير مال كالنكاح والطلاق والعتاق والوكالة والوصاية ونحو ذلك مما ليس بمال كذا في التبيين."

(كتاب الشهادات، الباب الثاني في بيان تحمل الشهادة وحد أدائها ،351/3،ط: دارا لفکر)

مرقاۃ المفاتیح  میں ہے:

''عن ابن عباس مرفوعاً: «لكن البينة على المدعي واليمين على من أنكر»۔ قال النووي: هذا الحديث قاعدة شريفة كلية من قواعد أحكام الشرع، ففيه: أنه لا يقبل قول الإنسان فيما يدعيه بمجرد دعواه، بل يحتاج إلى بينة، أو تصديق المدعى عليه.''

 (كتاب الإمارة والقضاء، باب الأقضية والشهادات،2439/6، ط :دار الفكر، بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144603102316

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں