بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 محرم 1447ھ 03 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

کسی مسلمان لڑکی کے عیوب کی سوشل میڈیا پر اس کے والدین کو اطلاع کی غرض سے تشہیر کرنے کا حکم


سوال

سوال ۱: ’’بھگوا لاؤ ٹرپ‘‘ پر کام کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟

۲: اسلام میں گناہ کھولنا منع فرمایا ہے، اب مثلاً کوئی مسلم لڑکی ٗ کسی ہندو لڑکے کے ساتھ حرام رشتے میں ہے، اور اس غلط کام کا ثبوت کسی مسلم کے پاس ہے، اور وہ مسلم لڑکا اس غلط کام سے روکنے کے لیے، اور اس مسلم لڑکی کے گھر والوں کو بتانے کے لیے سوشل میڈیا پر وائرل کرتا ہے، کیا یہ وائرل کرنا صحیح ہے؟

بغیر وائرل کیے گھر کا پتہ معلوم نہیں ہوتا ہو، تو کیا وائرل کر سکتے ہیں؟ جب کہ اگر اسی وقت لڑکی کے گھر والوں کو اس کے غلط رشتے کے بارے میں نہیں بتایا جائے، تو لڑکی کے مرتد ہونے کا زیادہ اندیشہ ہے۔

اور اگر ہم اس لڑکی کے عیب چھپا لیتے ہیں، اور وہ کل مرتد ہو گئی، تو کیا ہم سے سوال ہوگا؟ اور جب گھر پر لڑکی کے غلط رشتے کے بارے میں معلوم ہو جاتا ہے، تو سوشل میڈیا سے ڈیلیٹ کر دیا جاتا ہے، بہت سے لوگوں کا سوال رہتا ہے کہ تمہارے پاس ان کے غلط رشتے کے بارے میں ثبوت کہاں سے آتے ہیں؟ ہم سب ثبوت مسلم لڑکی اور ہندو لڑکے کی سوشل میڈیا (انسٹاگرام، فیسبک وغیرہ) سے اسکرین شاٹ لیتے ہیں۔

٣: کسی کے عیب کھولیں گے، تو کل اللہ تعالی آپ کے عیب کھولیں گے؟ اور ہم صرف اس نیت سے عیب کھول رہے ہیں، کہ اس لڑکی کے گھر والوں کو ٗ اس کا عیب معلوم ہو جائے، تو گھر والے اس لڑکی کو ان عیبوں سے روک لیں، اور بہت سی مسلم لڑکیاں اس غلط رشتے میں رہنے کی وجہ سے مرتد بھی ہوئی ہیں، اور ہمارے اس کام پر بہت سے انسان بددعا دیتے ہیں، خصوصاً وہ مسلم لڑکیاں جن کو ان کے ہندو عاشقوں سے دور کیا جاتا ہے ودیگر چند لوگ، اور ہمارے اس کام پر بہت سے انسان بہت دعائیں بھی دیتے ہیں، خصوصاً مسلم لڑکیوں کے والدین ودیگر حضرات۔

مذکورہ کام صرف اور صرف اپنی مسلم لڑکیوں کے ایمان کی حفاظت کے لیے کیا جاتا ہے، بہرحال ہم نے سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کا راستہ اس لیے بھی اختیار کیا ہے کہ بہت سے والدین کو اپنی لڑکی کے غلط رشتے کے بارے میں معلوم ہوتا ہے، اور وہ کچھ نہیں کہتے ہیں، اور جب وائرل ہو جاتا ہے اپنی عزت بچانے کے لیے لڑکی کو روکتے ہیں، تو کیا یہ کام جائز ہے یا نہیں؟

جواب

۱: ’’بھگوا لاؤ ٹرپ‘‘ کے متعلق ہمیں معلومات نہیں، یہ کیا چیز ہے؟ اس پر کیا کام ہوتا ہے؟ اور کس طریقے سے کیا جاتا ہے؟ پہلے ان چیزوں کی وضاحت کی جائے، تب ہی کچھ جواب دیا جاسکتا ہے۔

۲: اگر کسی مسلمان لڑکی کے کسی ہندو لڑکے کے ساتھ حرام تعلقات ٗ اتفاقاً سائل کے علم میں آجائیں، تو سائل کو شرعاً صرف اتنی اجازت ہے کہ اگر خود فتنہ میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ نہ ہو، نیز نفس پر اطمئنان بھی ہو، تو اس کے عیوب کی تشہیر کیے بغیر صرف اور صرف اسی لڑکی کو سائل خود یا اپنی کسی محرم خاتون کی مدد سے سمجھادے، اور اس طرزِ عمل سے دنیا اور آخرت کے مفاسد اسے بتاکر راہِ راست پر آنے کی دعوت دے دے۔

اس کے علاوہ باقاعدہ ’’تجسس‘‘ کرکے لڑکی یا لڑکے کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے ثبوت حاصل کرنا، اور اس نیت سے اس کی تشہیر کرنا کہ لڑکی کے والدین یا عزیز واقارب اسے دیکھ کر لڑکی کو روک لیں ٗ ایسا کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے، بلکہ ایسا کرنے میں سائل خود گناہ گار ہوگا، کیوں کہ تجسس کرکے کسی کے عیوب کو تلاش کرنا، اور کسی کے عیوب کی تشہیر کرنا (اگرچہ نیک مقصد سے ہو) ایک مستقل گناہ ہے، نیز یہ خیال کرنا کہ اگر لڑکی کے والدین کو نہ بتایا گیا، اور وہ لڑکی اسی حالت میں رہتے رہتے مرتد ہوگئی، تو قیامت میں ہم سے پوچھ ہوگی ٗ درست نہیں ہے، کیوں کہ قیامت میں ہر ایک سے اسی کے اعمال کے متعلق پوچھا جائے گا، دوسروں کے اعمال کے متعلق سوال نہیں ہوگا۔

اگر لڑکی کسی طریقہ سے باز نہ آئے، تو سائل کو چاہیے کہ ان ثبوتوں کی تشہیر کرنے کی بجائے ٗ اس لڑکی کے والدین کو کسی طریقہ سے تلاش کیا جائے، اور خاص کر صرف انہیں ہی بتایا جائے، والدین کا پتہ تلاش کرنے کے عذر سے لڑکی کے عیوب کی تشہیر کرنے کی قطعاً اجازت نہ ہوگی، اور اگر کسی طریقہ سے بھی والدین کا پتا میسر نہ ہوپائے، تو سائل خود کے لیے خصوصاً اور تمام امتِ مسلمہ کے لیے عموماً اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرے، ان شاء اللہ سائل کی نیک نیتی کا ثواب انہیں مل جائے گا۔

"سورة الحجرات" میں ہے:

"وَلَا تَجَسَّسُوْا."

ترجمہ از بیان القرآن: ’’اور بھید نہ ٹٹولو کسی کا۔‘‘

"سورة الفاطر" میں ہے:

"وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى وَ اِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِهَا لَا یُحْمَلْ مِنْهُ شَیْءٌ وَّ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى."

ترجمہ از بیان القرآن: ’’اور نہ اٹھائے گا کوئی اٹھانے والا ٗ بوجھ دوسرے کا، اور اگر پکارے کوئی بوجھل اپنا بوجھ بٹانے کو، کوئی نہ اٹھائے اس میں سے ذرا بھی، اگرچہ ہو قرابتی۔‘‘

"تفسير ابن كثير"  میں ہے:

"إن الذين يحبون أن تشيع الفاحشة في الذين آمنوا لهم عذاب أليم في الدنيا والآخرة والله يعلم وأنتم لا تعلمون.

وهذا تأديب ثالث لمن سمع شيئا من الكلام السيئ، فقام بذهنه منه شيء، وتكلم به، فلا يكثر منه ويشيعه ويذيعه، فقد قال تعالى: [إن الذين يحبون أن تشيع الفاحشة في الذين آمنوا] أي: يختارون ظهور الكلام عنهم بالقبيح [لهم عذاب أليم في الدنيا] أي: بالحد، وفي الآخرة بالعذاب، [والله يعلم وأنتم لا تعلمون] أي: فردوا الأمور إليه ترشدوا. . . . عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "لا تؤذوا عباد الله ولا تعيروهم، ولا تطلبوا عوراتهم، فإنه من طلب عورة أخيه المسلم، طلب الله عورته، حتى يفضحه في بيته."

(سورة النور، الآية: ١٩، ج: ٦، ص: ٢٩، ط: دار طيبة للنشر)

"مرقاة المفاتيح"  میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول صلى الله عليه وسلم: "إياكم والظن؛ فإن الظن أكذب الحديث، ولا تحسسوا، ولا تجسسوا ولا تناجشوا ولا تحاسدوا، ولا تباغضوا، ولا تدابروا، وكونوا عباد الله إخوانا". وفي رواية: "ولا تنافسوا". متفق عليه.

(ولا تحسسوا، ولا تجسسوا) : بحاء مهملة في الأول وبالجيم في الثاني فقال ابن الملك: أي لا تطلبوا التطلع على خير أحد ولا على شره، وكلاهما منهي عنه لأنه لو اطلعت على خير أحد ربما يحصل لك حسد بأن لا يكون ذلك الخير فيك، ولو اطلعت على شره تعيبه وتفضحه، وقد ورد: طوبى لمن شغله عيبه عن عيوب الناس."

(کتاب الآداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، ج: ٨، ص: ٣١٤٧، ط: دار الفكر، بيروت)

"رد المحتار على الدر المختار"  میں ہے:

"مطلب في الأمر بالمعروف: (قوله: فالأمر بالمعروف على هذا) كذا في الخانية، وفي فصول العلامي وإن علم أنه لا يتعظ ولا ينزجر بالقول ولا بالفعل ولو بإعلام سلطان أو زوج أو والد له قدرة على المنع لا يلزمه ولا يأثم بتركه، لكن الأمر والنهي أفضل، وإن غلب على ظنه أنه يضر به أو يقتله؛ لأنه يكون شهيدا. قال تعالى: أقم الصلاة وأمر بالمعروف وانه عن المنكر واصبر على ما أصابك، أي: من ذل أو هوان إذا أمرت، إن ذلك من عزم الأمور، أي: من حق الأمور، ويقال من واجب الأمور اهـ وتمامه فيه."

(کتاب الطهارة، باب الأنجاس، مطلب في الأمر بالمعروف، ج: ١، ص: ٣٥٠، ط: سعيد)

"الفتاوي الهندية"  میں ہے:

"وينبغي أن يكون التعريف أولا باللطف والرفق ليكون أبلغ في الموعظة والنصيحة ثم التعنيف بالقول لا بالسب والفحش ثم باليد كإراقة الخمر وإتلاف المعازف."

(کتاب الكراهية، الباب السابع عشر، ج: ٥، ص: ٣٥٣، ط: رشيدية)

فقط والله تعالى أعلم


فتوی نمبر : 144602101378

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں