بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی لڑکی کا تبدیلی جنس یعنی لڑکا بننے کی خواہش رکھنے اور اس کی دعا مانگنے کا حکم


سوال

میری ایک دوست ہے، اسے ایک ذہنی مسئلہ درپیش ہے، وہ لڑکا بننا چاہتی ہے، وہ اس کے لیے آپریشن کرنے کو بھی تیار تھی، پھر جب اسےمعلوم ہوا کہ یہ ایک بہت بڑا گناہ ہے، اوراللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت بھیجی ہے جو یہ عمل کرے، تو وہ رُک گئی ،لیکن ابھی بھی وہ یہ خواہش کرتی ہےاور لڑکا بننے کی دعا مانگتی ہے، کیا اس کا یہ دعا مانگنا صحیح ہے؟اس نے سنا ہے کے جنت میں انسان کی ہر خواہش پوری ہوگی،جنت میں مردوں کو بھی اتنی ساری بیویاں ملیں گی، تب سے وہ جنت میں جانے کی اور اپنی مذکورہ خواہش  پوری ہونے کے لیے دعا کرتی ہے، تو کیا جنت میں اس کی یہ خواہش پوری ہوجائے گی؟تو جب وہ لڑکی خدا کو راضی کرکے اس کی جنت حاصل کرلے ،اور اس کے بعد خدا سے اپنی حاجت بیان کرےتو اس میں کیا غلط ہےکہ اس کی خواہش کی چیز اسے مل جائے،کیوں کہ جنت میں انسان کو اختیار ہوگا کہ وہ جیسی چاہے شکل اختیار کرےتو اس وقت یہ تغییرجنس والا گناہ تو نہیں ہوگا ؟

جواب

واضح رہے کہ کسی  مرد یا عورت کا اپنی جنس کو بذریعۂ  آپریشن تبدیل کردینا ناجائز  عمل ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی خلقت وبناوٹ کو بدلنا، فطرت سے بغاوت کرنا، مذموم وشیطانی حرکت کا ارتکاب کرنا، اور تخلیقِ الٰہی کو چیلنج کرنا ہے، شریعتِ اسلامیہ میں اس کی اجازت نہیں ہے، قرآنِ کریم میں ہے:

"{فِطْرَتَ الله الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْها لا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ الله} ."[سورۃ الروم:۳۰]

"اللہ کی فطرت پر قائم رہو، جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اس کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں."(ترجمہ ازبیان القرآن)

قرآن پاک میں دوسرے مقام پراس تبدیلی جنس کے عمل کو براہ راست شیطانی عمل قرار دیاگیا ہے :

"{ لَعَنَهُ اللَّهُ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا  وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِوَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِوَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا} "[النساء:118، 119]

ترجمہ :" جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دور ڈال رکھا ہے اور جس نے یوں کہا تھا کہ میں ضرور تیرے بندوں سے اپنا مقرر حصہ (اطاعت کا) لوں گا۔ اور میں ان کو گمراہ کروں گا اور میں ان کو ہوسیں دلاؤں گا اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس میں وہ چوپایوں کے کانوں کوتراشا کریں گے اورمیں ان کو تعلیم دوں گا جس سے وہ الله تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے  اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کرشیطان کو اپنا رفیق بناوے گا وہ صریح نقصان میں واقع ہوگا۔ "(ترجمہ ازبيان القرآن )

 اور حدیثِ پاک میں ہے کہ اللہ پاک نے خلقت میں تبدیلی کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے، نیز جب خوب صورتی کے لیے یا کم عمر دکھانے کے لیے پلاسٹک سرجری کروانا، اور عورتوں کا مردوں  کے ساتھ، یا مردوں کا عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا، ناجائز وممنوع ہے، تو جنس کو تبدیل کرنا، بدرجۂ اولیٰ ناجائز اور حرام ہے، صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ابن  مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث شریف میں ہے:

"عن ‌عبد الله رضي الله عنه «‌لعن ‌الله ‌الواشمات والمستوشمات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغيرات خلق الله، ما لي لا ألعن من لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في كتاب الله.»."

(کتاب اللباس، باب المستوشمة ،ج:7،ص:167،ط:دارطوق النجاة)

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ لڑکی کاجنس تبدیل کرواکر لڑکا بننے کی کوشش کرنا شرعاً درست نہیں ہے،اور اس کی دعا کرنا بھی جائز نہیں ہے، کیوں کہ دعا میں خلاف شرع چیز کا طلب کرنا دعاکے آداب کے خلاف ہے،اور ایسے لوگوں کو دعاؤں میں حدسے تجاوز کرنے والےقرار دیا گیا ہے،جنہیں اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے ہیں،لہذا اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

روح المعانی میں ہے:

"وروى ابن جرير عن ابن جريج أن رفع الصوت بالدعاء من الاعتداء المشار إليه بقوله سبحانه: إنه لا يحب المعتدين وأخرج ابن أبي حاتم مثله عن زيد بن أسلم. وذهب بعضهم إلى أنه مما لا بأس به، ودعاء المعتدين الذي لا يحبه الله تعالى هو طلب ما لا يليق بالداعي كرتبة الأنبياء عليهم السلام والصعود إلى السماء .

والظاهر أن المراد بالمعتدين المجاوزون ما أمروا به في كل شيء ويدخل فيها المعتدون في الدعاء دخولا أوليا. وأخرج ابن أبي حاتم عن ابن جبير أن المعنى في الآية ‌ادعوا ‌ربكم في كل حاجاتكم من أمر الدنيا والآخرة ولا تعتدوا فتدعوا على مؤمن ومؤمنة بشر كالخزي واللعن."

(سورة الاعراف، ج:4، ص:379، ط:دارالكتب العلمية)

تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

"والحاصل أن كل ما یفعل من جسم من الزیادة أونقص من أجل الزینة بما یجعل الزیادة أو النقصان مستمرا مع الجسم وبما یبدو منه أنه كان فی أصل الخلقةهكذا فانه تلبیس وتغییر منهي عنه ."

(تكملة فتح الملهم، كتاب الباس والزينة، ج:4 ، ص: 195،ط:مكتبة دارالعلوم)

فتح الباری میں ہے:

"أن ‌جناية ‌الإنسان ‌على ‌نفسه كجنايته على غيره في الإثم لأن نفسه ليست ملكا له مطلقا بل هي لله تعالى فلا يتصرف فيها إلا بما أذن له فيه."

(ج:11، ص:539، ط:دارالمعرفة)

نیز جنت میں مسلمان کی ہر خواہش تو پوری ہوگی لیکن جنت میں غیر فطری اور ناجائز خواہش دل میں پیدا ہی نہیں ہو گی؛  لہذا جنت میں پہنچ جانے کے بعد مذکورہ لڑکی کو  یہ چاہت نہیں ہوگی کہ اسے لڑکا بنادیا جائے، بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی دیگر گراں قدر نعمتوں کی فراوانی  کی وجہ سے کسی جنتی کی کوئی حسرت باقی نہیں رہےگی۔

غرائب التفسیر و عجائب التاویل میں ہے:

"متى سألوا شيئاً فهو لهم، من قوله:(وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ)وأما المعاصي فتصرف عن شهواتهم."

(سورة الفرقان، ج:2، ص:811، ط:مؤسسة علوم القرآن)

روح المعانی میں ہے:

"أن اللواطة  مثلا لا تكون في الجنة لأن ما لا يليق أن يكون فيها لا يشتهى."

(سورة الزخرف، ج:13، ص:99، ط:دارالكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407101053

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں