بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کو یہ کہنا کہ اگر ٹرین وقت پر آگئی تو میں تمہیں ایک کروڑ روپے دوں گا، پھر وہ ٹرین وقت سے پہلے ہی آجائے تو کیا یہ رقم دینا ضروری ہے؟


سوال

بات یہ ہے کہ کئی سال پہلے میں  نے اپنے دوسرے نمبر کے داماد سے فون پر اُن مہمانوں کے بارے میں معلوم کیا جو میرے یہاں آنے والے تھے،  مہمان میرے داماد کے والد صاحب،  پھوپھا اور میرے سمدھی کے داماد تھے،  تینوں حضرات ٹرین سے آ رہے تھے،  اُن کو شاہدرہ اسٹیشن پر دس بجے ٹرین سے اُترنا تھا،  مجھے ٹرین کا وقت دس بجے ہی معلوم تھا، لیکن اُس وقت کے مطابق مجھے لگا کہ ٹرین وقت پر نہیں پہنچے گی،  میرے معلوم کرنے پر میرے داماد نے یہی وقت بتایا کہ دس بجے ٹرین سے اُتر جائیں گے ان شاء اللہ،  اِس پر میں نے اپنے داماد سے کہا کہ" ٹرین وقت پر پہنچ گئی تو میں آپ کو ایک کروڑ روپے دوں گا" ، اللہ کے حکم سے ٹرین وقت سے پہلے ہی پہنچ گئی،  میرے داماد نے مہمانوں کے اتر جانے کی خبر فوراً مُجھ کو دی،  اُس وقت میں نے اپنے داماد کو دعائیہ الفاظ سے نوازتے ہوئے کہا کہ" تقویٰ اختیار کرو،  میں نے علماء سے سنا ہے کہ شرط لگانا حرام ہے"،  لیکن یہ شرط میری طرف سے تھی، یہ  بات جو میں نے ایک کروڑ روپے کی کہی میری ہی طرف سے تھی،  داماد کی طرف سے بالکل نہیں تھی،  اور میں الحمدُ للہ حیثیت دار بھی ہوں،  تو کیا ایک کروڑ روپے مجھے اپنے داماد کو دینا واجب و ضروری ہے یا نہیں ؟

جواب

 صورتِ مسئولہ  میں سائل کا اپنے  داماد کو یہ کہنا کہ " ٹرین وقت پر پہنچ گئی تو میں آپ کو ایک کروڑ دوں گا" یہ وعدہ تھا جو ایک جائز عمل ہے،  حرام  شرط کے زمرے میں نہیں آتا ہے،  پھر اس کے یہ کہنے  کے بعد  ٹرین اگر چہ وقت سے پہلے پہنچی، لیکن  چوں کہ سائل کی  یہی  مراد تھی کہ  ٹرین وقت پر نہیں پہنچے گی،  اس لیے اس سیاق کو،  اور عام عرف کو دیکھتے ہوئے سائل پر لازم ہے کہ وعدے کی پاس داری کرتے ہوئے اپنے داماد کو مذکورہ رقم(ایک کروڑ روپے ادا کرے)، ادا نہ کرنے کی صورت میں  وعدہ خلافی کے گناہ کا مرتکب ہوگا۔

"غمز عيون البصائر  علي الأشباه و النظائر" میں ہے:

"الخلف في الوعد حرام كذا في أضحية الذخيرة وفي القنية. وعده أن يأتيه فلم يأته لا يأثم ،  ولا يلزم الوعد إلا إذا كان معلقا كما في كفالة البزازية،  وفي بيع الوفاء كما ذكره الزيلعي.

قوله: الخلف في الوعد حرام: قال السبكي: ظاهر الآيات والسنة تقتضي وجوب الوفاء، وقال صاحب العقد الفريد في التقليد: إنما يوصف بما ذكر أي بأن خلف الوعد نفاق إذا قارن الوعد العزم على الخلف كما في قول المذكورين في آية {لئن أخرجتم لنخرجن معكم} فوصفوا بالنفاق لإبطانهم خلاف ما أظهروا وأما من عزم على الوفاء ثم بدا له فلم يف بهذا لم يوجد منه صورة نفاق كما في الإحياء من حديث طويل عند أبي داود والترمذي مختصرا بلفظ «إذا وعد الرجل أخاه، ومن نيته أن يفي فلم يف فلا إثم عليه» (انتهى) .

وقيل: عليه فيه بحث فإن أمر «أوفوا بالعقود» مطلق فيحمل عدم الإثم في الحديث على ما إذا منع مانع من الوفاء.

  قوله: وفي القنية وعده أن يأتيه لا يأثم:قال بعض الفضلاء فإن قيل: ما وجه التوفيق بين هذين القولين فإن الحرام يأثم بفعله وقد صرح في القنية بنفي الإثم،قلت: يحمل الأول على ما إذا وعد وفي نيته الخلف فيحرم؛ لأنه من صفات المنافقين والثاني على ما إذا نوى الوفاء وعرض مانع (انتهى) .

أقول في الدرر والغرر من كتاب العارية ما يفيد أن خلف الوعد مكروه.

(14) قوله: ولا يلزم الوعد إلا إذا كان معلقا:قال بعض الفضلاء: لأنه إذا كان معلقا يظهر منه معنى الالتزام كما في قوله إن شفيت أحج فشفي يلزمه، ولو قال: أحج لم يلزمه بمجرده.

(15) قوله: كما في كفالة البزازية:حيث قال في الفصل الأول من كتاب الكفالة: الذهب الذي لك على فلان أنا أدفعه أو أسلمه إليك أو اقبضه مني لا يكون كفالة ما لم يقل لفظا يدل على اللزوم كضمنت أو كفلت أو علي أو إلي وهذا إذا ذكره منجزا أما إذا ذكره معلقا بأن قال: إن لم يؤد فلان فأنا أدفعه إليك ونحوه يكون كفالة لما علمأن المواعيد باكتساب صورة التعليق تكون لازمة (انتهى) .

ومثله في التتارخانية وفي البحر للمصنف نقلا عن الفتاوى الظهيرية والولوالجية: ولو قال: إن عوفيت صمت كذا لم يجب عليه حتى يقول: لله علي، وهذا قياس، وفي الاستحسان يجب فإن لم يكن تعليقا فلا يجب عليه قياسا واستحسانا نظيره ما إذا قال: أنا أحج لا شيء عليه ولو قال إن فعلت كذا فأنا أحج ففعل ذلك يلزمه ذلك (انتهى) .

أقول على ما هو الاستحسان يكون الواجب بإيجاب العبد شيئين نذر ووعد مقترن بتعليق فاستفده فإنه بالقبول حقيق بقي أن يقال في مثل إن جئتني أكرمك فجاءه هل يكون الإكرام على المعلق واجبا ديانة وقضاء أو ديانة فقط؟ محل نظر."

(الفن الثاني، كتاب الحظر و الإباحة، ج:3، ص:236-237، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100541

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں