بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کو طلاق کا مسئلہ سمجھانے سے اپنی بیوی کو طلاق واقع ہونے کے وساوس پیدا ہونا


سوال

 میں ایک مسئلے میں کا فی پریشان ہوں دن رات اسی فکر میں رہتا ہوں، مسئلہ یہ ہے کہ مجھے وساوس کی بیماری ہے خاص کر بیوی کے حوالے سے کافی وساوس میں مبتلا رہتا ہوں، ایک دن مجھ سے میرے کسی مقتدی نے مسئلہ پوچھا کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہوں آپ بتائیں کیسے دیں، تو میں نے ان کو بتانا شروع کیا کہ :کوئی شخص کہے میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی، میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو طلاق واقع ہو جائے گی! مفتی صاحب! اس کے بعد میں سخت وساوس میں مبتلا ہو گیا کہ میری نیت بیوی کی ہوگئی تھی، کبھی دل میں آتاہے کہ نہیں یہ محض تصور تھا پھر دل میں آتاہے تم مولوی ہو اس لئے اپنے آپ کو بچا رہے ہو، اسی کشمکش میں دن رات رہتا ہوں۔

اب آپ بتائیں مفتی صاحب! بندہ کیا کرے، کیا ان الفاظ میں نیت کا اعتبار ہے یا نہیں؟  بندہ اس حوالے سے کرب میں مبتلا ہے، آں  جناب سے امید ہے کہ مدعی سمجھ گئے ہوں گے!

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  سائل نےاگر واقعۃً اپنے کسی مقتدی کے دریافت کرنے پر مسئلہ سمجھانے کی نیت سے یہ کہا تھا کہ" کوئی شخص کہے میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی، میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو طلاق واقع ہو جائے گی!"تواس سے سائل کی بیوی پر کسی قسم کی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، لہذا اب بعد میں اس قسم کے وسوسوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔

باقی ان  وساوس کا علاج یہ ہی ہے  کہ ان کی طرف بالکل دھیان نہ دیا جائے، ان کو دل میں جگہ نہ دی جائے، ان کے مقتضی پر عمل، زبان سے تلفظ یا لوگوں کے سامنے ان کا اظہار نہیں کیا جائے، بلکہ ان کا خیال جھڑک کر ذکر  اللہ کی کثرت کا اہتمام کیا جائے ، اور ساتھ ساتھ  درج ذیل اعمال اس سے بچنے میں معاون ہوں گے:

(1)  أعُوذُ بِاللّٰه  (2)اٰمَنْتُ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِه  کا کثرت سے  ورد کرے۔ (3)  هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْم  (4) نیز  " رَّبِّ أَعُوْذُبِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَ أَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ"  کا کثرت سے ورد کرنا بھی ہر طرح کے شیطانی شکوک ووساوس کے دور کرنے میں مفید ہے۔

فتح القدیر میں ہے:

"ولا بد من القصد بالخطاب بلفظ الطلاق عالما بمعناه أو بالنسبة إلى الغائبة كما يفيده فروع: هو أنه لو كرر مسائل الطلاق بحضرة زوجته ويقول: أنت طالق ولا ينوي طلاقا لا تطلق، وفي متعلم يكتب ناقلا من كتاب رجل قال: ثم وقف وكتب امرأتي طالق وكلما كتب قرن الكتابة بالتلفظ بقصد الحكاية لا يقع عليه."

(كتاب الطلاق، باب ايقاع الطلاق، ج:4، ص:4، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله أو لم ينو شيئا) لما مر أن الصريح لا يحتاج إلى النية، ولكن لا بد في وقوعه قضاء وديانة من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها عالما بمعناه ولم يصرفه إلى ما يحتمله كما أفاده في الفتح، وحققه في النهر، احترازا عما ‌لو ‌كرر ‌مسائل ‌الطلاق بحضرتها، أو كتب ناقلا من كتاب امرأتي طالق مع التلفظ، أو حكى يمين غيره فإنه لا يقع أصلا ما لم يقصد زوجته."

(كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، ج:3، ص:250،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144501100427

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں