تین دوست پارٹنر شپ میں کاروبار کر رہے ہیں، دو دوستوں کو 10لاکھ کی رقم کسی معاملے میں درکار ہے اور تیسرے پارٹنر سے قرض چاہتے ہیں، مگر تیسرے کے پاس بھی رقم نہیں ہے ،البتہ وہ اپنی بیوی سے سونا لا سکتا ہے، جس کو بیچ کر 10 لاکھ مل سکتے ہیں، اب معاملہ یہ ہے کہ تیسرا دوست جو بیوی سے سونا لائے گا وہ واپس سونا ہی دے گا ،لہذا کیا یہ تیسرا شخص سونا بیچنے اور دوبارہ خریدنے میں جو مالی نقصان ہوگا ان دونوں سے لے سکتا ہے؟
سونا ان کو بتائے بغیر لینا ہے؛ کیوں کہ اگر ان کو پتہ لگا تو روپے واپس نہیں کریں گے، اب مسئلہ یہ ہے کہ سونا بکے گا 10لاکھ میں جب کہ دوبارہ بنے گا 12لاکھ میں، تو یہ 2 لاکھ کا نقصان ان سے وصول کیا جا سکتا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کا بیوی کے زیور کو بیچ کر دوستوں کو 10 لاکھ روپے دینا قرض ہے،لہذا وہ اپنے دوستوں سے 10 لاکھ کی رقم ہی وصول کر سکتے ہیں ، سونے کے بھاؤ میں تفاوت کی تلافی کے لیے پیسوں کا مطالبہ سود ہے اور ناجائز ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے :
"حدثنا أبو بكر قال: حدثنا حفص عن أشعث عن الحكم عن إبراهيم قال: كل قرض جر منفعة فهو ربا."
(كتاب البيوع والأقضية،من كره كل قرض جر منفعة،ج11،ص425،رقم:21937،ط:دار كنوز إشبيليا)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"الأصل بأن الديون تقضى بأمثالها."
(كتاب الزكاة،باب العشر،ج2،ص210،ط:مطبعة السعادة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503100570
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن