بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 جمادى الاخرى 1446ھ 12 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کو سابقہ گناہوں پر طعنہ دینا


سوال

میری بیوی اپنی بہووں کوان کےسابقہ  گناہوں پر طعنہ دیتی ہے   ،  ایسی صورت میں میری بیوی کےبارےمیں شرعی حکم کیاہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں سائل کی بیوی کا اپنی بہووں کوسابقہ گناہوں پر  طعنہ دینا  قطعاً ناجائز ہے،  شریعتِ مطہرہ میں اس کی ممانعت وارد ہے، بلکہ احادیث کی رو سے یہ اندیشہ بھی ہے کہ بہووں کو  (جس سے گناہ سرزد ہوا تھا )تو اللہ تعالیٰ معاف فرمادیں، لیکن گناہ کا طعنہ دینے والی کو خود  اس گناہ میں مبتلا کردیا جائے،  لہذا کسی مسلمان کو  گناہ  پر طعنہ دیناجائز نہیں ہے، خواہ توبہ سے پہلے ہو یا بعد میں،سائل کی بیوی  کا یہ طرزِ عمل درست نہیں ہے،  لہذا کسی مسلمان مرد و عورت کو  گناہ پر طعنہ دیناجائز نہیں ہے، اگر کوئی شخص کسی گناہ میں مبتلا ہو تو اس کی اصلاح کی غرض سے اس کو نصیحت کی جائے جس سے وہ گناہ چھوڑدے،  اور اس کے عیوب پر پردہ ڈالا جائے، نہ کہ گناہ چھوڑنے والے شخص کو سابقہ گناہوں پر طعنہ دیا جائے۔

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس ‌المؤمن بالطعان ولا باللعان ولا الفاحش ولا البذيء."

(باب حفظ اللسان، الفصل الثاني، ج: 3، ص: 1362، ط: المكتب الإسلامي بيروت)

 

ترجمہ :"حضرت عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مومن طعنہ مارنے والا، لعنت کرنے والا، بےحیا اور فحش گو نہیں ہوتا ہے۔“

 جامع الترمذی  میں  ہے:

"حدثنا أحمد بن منيع، قال: حدثنا محمد بن الحسن بن أبي يزيد الهمداني، عن ثور بن يزيد، عن خالد بن معدان، عن معاذ بن جبل، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌من ‌عير ‌أخاه بذنب لم يمت حتى يعمله ،قال أحمد: قالوا: من ذنب قد تاب منه".

(أبواب الزهد عن رسول الله صلي الله عليه وسلم، باب، ج:4، ص:661، رقم الحدیث: 2505، ط:  مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي مصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603100403

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں