بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کو قسم دینا


سوال

میاں بیوی کے درمیان ناچاقی پیدا ہوئی ،شوہر امام مسجد ہےاور اکثر اوقات دینی خدمت میں مصروف رہتا ہے،بیوی شوہر کی غیر موجودگی میں شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے  میکے گئی ہے اور  اپنے ساتھ  نقدی، سونا، چاندی اور گھر کا سامان لے کر گئی ہے ،بیوی نخرے باز اور آزاد ماحول کی دل دادہ ہےاور شروع دن سے ہی اس نے اپنے شوہر کو شوہر نہیں سمجھا،حالاں کہ اس کا شوہر اس کے ساتھ انتہائی محبت  کرتا ہےاور اسے دوبارہ لانے کی کوشش بھی کی، لیکن اس نے آنے سے انکار کیا اور بالآخر شوہر مجبور ہوگیااور اس نے عدلیہ کے اندر کیس دائر کیا کہ مجھے اپنی بیوی اور اپنا سب کچھ واپس دلوایا جائےتو اس کی بیوی نے جوابِ دعوی میں جھوٹی طلاق کا دعوی کیا ہے،جو کہ اس کے وکیل کا سمجھایا ہوا کارنامہ ہے اور اب طلاق کے لیے جھوٹے گواہوں کے پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،تو اب کیا اس کا شوہر بیوی کی طرف سے جھوٹی گواہی دینے والے گواہوں سے طلاق اٹھانے کا  مطالبہ کر سکتا ہے، یعنی ان سے یوں گواہی لی جائے کہ اس کے شوہر نے ہمارے سامنے بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں، اگر  اس نے بیوی کو ہمارے سامنے تین طلاقیں نہ دی ہوں تو ہم پر ہماری بیویاں ہمیشہ کے لیےحرام ہو جائیں اور ان کو طلاقِ مغلظہ ہو،تو کیا شوہرکا اپنے حق کی حفاظت کے لیے بیوی کی طرف سے جھوٹے گواہوں سے اس قسم کا مطالبہ شرعی ہے یا غیر شرعی؟

اور اگر طلاق کے مطالبہ پر وہ تین طلاق کی گواہی دینے سے پیچھے ہٹ جائیں تو ایسے گواہوں کے لیے شریعتِ مطہرہ میں کیا حکم اور کیا سزا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  شوہر کویہ حق نہیں ہے  کہ وہ گواہوں سےیوں  گواہی لےکہ :" اس (شوہر) نے ہمارے سامنے بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں، اگر  اس نے بیوی کو ہمارے سامنے تین طلاقیں نہ دی ہوں تو ہم پر ہماری بیویاں ہمیشہ کے لیےحرام ہو جائیں اور ان کو طلاقِ مغلظہ ہو"،تاہم اگر قاضی مناسب سمجھے تو اپنی صواب دید کے مطابق گواہوں سے قسم لینے میں زمان ومکان وغیرہ کےساتھ تغلیظ کر سکتا ہے،اس کے علاوہ اگر واقعتاًامام صاحب کی بیوی نقدی اورسوناچاندی وغیرہ  ساتھ لے کر گئی ہے اور وہ امام صاحب کی ملکیت ہے تو ان کا واپس کرنا شرعاً بیوی کے ذمہ لا زم ہے۔

شرح ادب القاضی ميں ہے:

"وإذا حلفه القاضي في كل موضع حلفه إن شاء غلظ في اليمين، وإن شاء لم يغلظ، لكن ينبغي أن يتأمل حتى لا يكرر عليه اليمين ...والاختيار في صفة التغليظ إلى القاضي يزيد في التغليظ ما شاء وينقص ما شاء"

(باب تغليظ اليمين ج116/2 ط:مطبع الارشاد،بغداد)

فتاوی شامی میں ہے:

                         "لا ‌يجوز ‌التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته"

                          (مطلب في لحوق الاجازه  ج6/ 200ط:سعيد)

 فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100337

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں