بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کو منافق کہنے کا حکم


سوال

اگر کوئی صحافی غلط کام کر رہا ہو، مثال کے طور پر ایک پارٹی آئی ۔ایم۔ ایف سے قرضہ لے رہی ہے تو کچھ صحافی اُس کی حد سے زیادہ مخالفت کرتے ہیں، لیکن وہی کام کوئی اور پارٹی کرے، تو وہی صحافی اُس کی تعریف کرتے ہوں، تو کیا اُن صحافیوں کو بندہ منافق کہہ سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نفاق ایک مخفی چیز ہے، جس کے بارے میں بالیقین فیصلہ کرنے کا کسی  کو حق نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ نفاق کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے ساتھ خاص تھا، اب یا تو مؤمن ہے یا کافر، لہٰذا کسی مسلمان کو  متعینہ طور پر منافق کہنا جائز نہیں ہے،البتہ نفاق کی  دو قسمیں ہیں:
۱۔نفاقِ اعتقادی : وہ شخص جو بظاہر مسلمان ہو، لیکن درپردہ کافر ہو، منافق اعتقادی کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ہے اور وہ دوسرے کفار کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائے گا۔

نفاقِ اعتقادی کا حکم: نفاقِ اعتقادی کا حکم یہ ہے کہ ایسا منافق کفار کے زمرے میں آتا ہے، اگر بغیر توبہ کے مرا تو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں جائے گا اور جہنم کے نچلے طبقے میں رکھا جائے گا۔
۲۔ نفاقِ عملی: وہ شخص جو عقیدے کے اعتبار سے تو پکا اور سچا مسلمان ہو، لیکن اس کے اندر منافقین سے ملتی جلتی عادتیں ہوں، مثلاً جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا اور خیانت وغیرہ کا مرتکب ہونا، جھگڑے کے وقت بد زبانی کرنا، اس جیسے اور برے افعال میں مبتلا شخص مسلمان تو رہے گا، لیکن سخت گناہ گار ہو گا،اور ایسا مسلمان شخص کا عمل منافقوں والا کہلاتاہے،اس لیے کہ حقیقی منافق جو عہدِرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تھے ان کے اندر یہ تمام برائیاں اور خرابیاں موجود تھیں ۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص واقعۃً جھوٹ بولتاہو اور دو چہروں والا ہوتو ایسا شخص نفاقِ عملی کا مرتکب کہلائے گا،لیکن اس کے باوجود شریعت نے ہمیں اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ ہم اسے منافق کہتےپھریں ،اس کےلیے منافق ،منافق کی صدابلند کرتے رہیں،بلکہ خیرخواہی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی اصلاح کی کوشش کریں،اسے وعظ ونصیحت کریں ،اس کے حق میں دعاکریں ۔

نفاقِ عملی کا حکم: نفاقِ عملی کا مرتکب مسلمان ہی کہلائے گا، لیکن اس کا یہ عمل گناہ کبیرہ کی طرح ہے، اگر بغیر توبہ کے دنیا سے چلا گیا، تو اپنے گناہوں کی سزا پانے کے لیے دوزخ میں ڈالا جائے گا، اس کے بعد ایمان کی وجہ سے جنت میں داخل ہو گا۔

"صحيح البخاري"  میں ہے:

"حدثنا خلاد: حدثنا مسعر، عن حبيب بن أبي ثابت، عن أبي الشعثاء، عن حذيفة قال: إنما كان ‌النفاق ‌على ‌عهد ‌النبي صلى الله عليه وسلم، فأما اليوم: فإنما هو الكفر بعد الإيمان ".

(كتاب الفتن، باب:  إذا قال عند القوم شيئا، ثم خرج فقال بخلافه،ج:9،ص:58،ط:السلطانية)

"عمدة القاري شرح صحيح البخاري"میں ہے:

"السادس: ما قاله حذيفة: ذهب النفاق، وإنما كان النفاق على عهد رسول الله، عليه السلام، ولكنه الكفر بعد الإيمان، فإن الإسلام شاع وتوالد الناس عليه، فمن نافق بأن أظهر الإسلام وأبطن خلافه فهو مرتد".

(كتاب الإيمان،باب علامة المنافق،ج:1،ص:222،ط:دار إحياءالتراث العربي)

 وفيه أيضا:

"إن هذہ الخصال قد توجد في المسلم المصدق بقلبه ولسانه مع أن الإجماع حاصل علی أنه لا یحکم بکفرہ وبنفاق یجعله في الدرک الأسفل من النار".

( باب علامة المنافق ،ج:1،ص:221،ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت)

"مرقاة المفاتيح" ميں هے:

"قال التوربشتي: من اجتمعت فیه هذہ الخصال واستمرت فبالحري أن یکون منافقاً، وأما المؤمن المفتون بها فإنه لا یصر علیها، وإن وجدت فیه خصلة منہا عدم الأخری، قیل: ویحتمل أن یکون المراد کالمنافق بحذف أداۃ التشبیه مثل زید أسد، ویحتمل أن یکون ہٰذا مختصاً بأهل زمانه فإنه علیه الصلاۃ والسلام عرف بنور الوحي بواطن أحوالهم".

(كتاب الإيمان،باب الكبائر وعلامات النفاق،ج:1،ص:128،ط:دار الفكر)

"البحر الرائق"میں ہے:

"أما من یبطن الکفر والعیاذ باللہ، ویظهر الإسلام فهو منافق، ویجب أن یکون حکمه في عدم قبولنا توبة کالزندیق".

( کتاب السیر، باب أحکام المرتدین، ج:5،ص:136،ط:دارالكتاب الإسلامي)

"فتح الباري لابن حجر"  میں ہے:

"وقد وقع في رواية الإسماعيلي من طريق أبي شهاب عن الأعمش بلفظ من شر خلق الله ذو الوجهين قال القرطبي إنما كان ذو الوجهين شر الناس لأن حاله حال المنافق إذ هو متملق بالباطل وبالكذب مدخل للفساد بين الناس وقال النووي هو الذي يأتي كل طائفة بما يرضيها فيظهر لها أنه منها ومخالف لضدها وصنيعه نفاق ومحض كذب وخداع وتحيل على الاطلاع على أسرار الطائفتين وهي مداهنة محرمة قال فأما من يقصد بذلك الإصلاح بين الطائفتين فهو محمود".

 (قوله باب من أخبر صاحبه بما يقال فيه،ج:10،ص:475،ط:دار المعرفة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401102022

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں