بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کی ذاتی قبرستان کی جگہ مسجد بنانے کا حکم


سوال

ذاتی قبرستان کے اوپر پِلر کھڑے کر کے مسجد بنانا کیسا ہے ، جب کہ مسجد کا کچھ حصہ قبروں کے اوپر آتا ہو اور کچھ قبروں سے ہٹ کر آتا ہو؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر قبرستان کسی شخص کی ذاتی ملکیت  ہے  اور قبر پرانی ہونے کی وجہ سے اندر کی میت مٹی ہو چکی ہے ،تو مالک یا اس کے ورثاء کی اجازت  سےاس جگہ پر مسجد بنانا شرعاً جائز ہے۔

امداد الأحکام میں ہے:

”پرانی قبر کو مسجدمیں داخل کرنا“

”کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ ایک مسجد بہت چھوٹی ہے، جس میں پورے طور پر نمازی نہیں آسکتے، اس کو بڑھانا چاہتے ہیں، مگر تین طرف سے بالکل جگہ نہیں اور دوسری طرف اگر مسجد بڑھانی جائے تو ایک قبر مسجد کے اندر آجاتی ہے، ایسی صورت میں مسجد کا کیا حکم ہے؟ اگر مسجد کا اسباب لے کر کشادہ زمین میں اس اسباب سے مسجد تعمیر کرائی جائے تو جائز ہے یا نہیں؟

الجواب: سوال سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبر پرانی ہے، سو اگر ایسا ہے تو اس قبر کا نشان مٹا کر اس کی بلندی کو دوسری زمین کے ہموار کر کے اس زمین کو مسجد کے اندر لے لینا جائز ہے، بشرطیکہ موضع قبر وقف، اگر وقف نہ ہو تو ورثاء میت سے یا جو اس زمین کا مالک ہو اجازت حاصل کر کے ایسا کیا جائے اور اگر جدید ہے، پرانی نہیں تو ابھی اس کو جزء مسجد بنانا جائز نہیں، جب تک کہ قدیم اور بوسیدہ نہ ہوجائے، اس صورت میں اس مسجد کو اس حال پر چھوڑ دیا جائے اور دوسری جگہ بڑی مسجد بنائی جائے، قدیم مسجد کامنہدم کرنا اور اس کا سامان جدید میں لگانا جائز نہیں۔ واللہ اعلم“

(احکام المقابر: ج:2، ص: 286، ط: مکتبہ دار العلوم، کراچی)

فتاوٰی مفتی محمود میں ہے:

”اگر واقعی قبرستان کسی کامملوک ہے اور ا سے قبور مٹ چکی ہوں اور اتنا زمانہ گزر گیا ہے کہ یہ یقین ہو جائے کہ اہلِ قبور کی ہڈیاں مٹی ہوگئی ہوں گی تو مالک کی اجازت سے اس جگہ مسجد بنانا جائز ہے، ورنہ جائز نہیں ۔“

(کتاب الجنائز: ج:3، ص:125، ط: اشتیاق اے مشتاق پریس)

الدر المختار  میں ہے:

"(تؤخذ أرض) ودار وحانوت (بجنب مسجد ضاق على الناس بالقيمة كرها) درر وعمادية."

رد المحتار میں ہے:

"(قوله: وتؤخذ أرض) في الفتح: ولو ضاق المسجد وبجنبه أرض وقف عليه أو حانوت جاز أن يؤخذ ويدخل فيه اهـ زاد في البحر عن الخانية بأمر القاضي وتقييده بقوله: وقف عليه أي على المسجد يفيد أنها لو كانت وقفا على غيره لم يجز لكن جواز أخذ المملوكة كرها يفيد الجواز الأولى؛ لأن المسجد لله تعالى، والوقف كذلك ولذا ترك المصنف في شرحه هذا القيد وكذا في جامع الفصولين تأمل (قوله: بالقيمة كرها) لما روي عن الصحابة - رضي الله عنهم - لما ضاق المسجد الحرام أخذوا أرضين بكره من أصحابها بالقيمة وزادوا في المسجد الحرام بحر عن الزيلعي قال في نور العين: ولعل الأخذ كرها ليس في كل مسجد ضاق، بل الظاهر أن يختص بما لم يكن في البلد مسجد آخر إذ لو كان فيه مسجد آخر يمكن دفع الضرورة بالذهاب إليه نعم فيه حرج لكن الأخذ كرها أشد حرجا منه ويؤيد ما ذكرنا فعل الصحابة إذ لا مسجد في مكة سوى الحرام اهـ. "

(کتاب الوقف، مطلب في الوقف إذا خرب ولم یکن عمارته: ج:4، ص:379، ط: سعید)

فتاوٰی شامی میں ہے:

" وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اهـ. قال في الإمداد: ويخالفه ما في التتارخانية إذا صار الميت ترابا في القبر يكره دفن غيره في قبره؛ لأن الحرمة باقية"

(مطلب في دفن المیت: ج:2، ص:233، ط: سعید)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"رجل وقف ضيعته علي جهة معلومة، أو علي قوم معلومين ،ثم إن الواقف غرس شجرا قالو: إن غرس من غلة الوقف أو من مال نفسه ،لكن ذكر أنه غرس للوقف ،يكون للوقف وإن لم يذكر شيئا وقد غرس من مال نفسه يكون له وورثته بعده ،ولا يكون وقفا."

(كتاب الوقف،الباب الحادي العشر في المسجد، ج:2، ص:428، ط: حقانیة)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"فان شرائط الواقف معتبرۃ إذا لم تخالف الشرع ،و هو مالك فله أن يجعل ماله حيث شاء مالم يكن معصية."

(کتاب الوقف ،مطلب شرائط الواقف معتبرة: ج:6، ص:343، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101182

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں