بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کی زمین اس کی اجازت کے بغیر فروخت کرنا


سوال

میری والدہ کی کچھ ذاتی زمین تھی ،جو میرے والد نے والدہ کی اجازت کے بغیر فروخت کرکے خریدنےوالے کو قبضہ بھی دے دیا،جب کہ والدہ باربار منع کرتی ر ہی،لیکن والدنے اُن کی  ایک نہیں مانی،والدہ ابھی بھی اجازت نہیں دے رہی،اب والدہ نے وہ زمین میرے نام کردی ہے،لیکن والدنے زمین جس کو فروخت کی ہے وہ واپس دینے سے انکار کر رہے ہیں ،اب سوال یہ ہے کہ یہ زمین کس کی ملکیت ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد نے جب سائل کی والدہ کی زمین اُس کی اجازت کے بغیر فروخت کی اورسائل کی والدہ نے بعد میں بھی اس(خرید وفروخت کے) معاملہ  کی اجازت نہیں دی تو  یہ معاملہ درست نہیں تھا،سائل کے والد پر لازم ہے کہ اس نے زمین خریدنےوالے سے زمین کی جو قیمت وصول کی ہےوہ اس کو واپس کردے ،اور زمین خریدنے والے پر لازم ہے کہ وہ سائل کے والدکو مذکورہ زمین واپس کردے،نیز سائل کی والدہ کا سائل کےنام پر مذکورہ زمین کردینے سے اس پر سائل کی ملکیت ثابت نہیں ہوئی ہے،بلکہ وہ بدستور سائل کی والدہ كي ملکیت ہے،سائل کی ملکیت ثابت ہونے کے لیے ضروری  ہےکہ اس کی والدہ  اس کومذکورہ زمین پرمالکانہ حقوق کے ساتھ قبضہ اور تصرف کااختیار بھی دےدے۔

فتح القدیر میں ہے:

"ومنها شرط النفاذ وهو الملك والولاية، حتى إذا ‌باع ‌ملك ‌غيره توقف النفاذ على الإجازة ممن له الولاية".

(كتاب البيوع،248/6، ط: دارالفکر)

الدر مع الرد میں ہے:

"(وتصح بإيجاب ك وهبت ونحلت وأطعمتك هذا الطعام ولو) ذلك (على وجه المزاح) بخلاف أطعمتك أرضي فإنه عارية لرقبتها وإطعام لغلتها بحر (أو الإضافة إلى ما) أي إلى جزء (يعبر به عن الكل ك وهبت لك فرجها وجعلته لك) لأن اللام للتمليك بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة۔۔۔الخ. وفي الرد : (وقوله: بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: جعلته باسمك، لا يكون هبة."

(کتاب الھبة،5/688۔689،ط:سعید)

وفیه ایضًا:

"(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول)."

(کتاب الھبة، 687،688/5، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100228

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں