بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وفات کے بعد ملنے والی پنشن کا حکم


سوال

میرے والدین کا انتقال ہوچکا ہے،والدین کے والدین ان سے پہلے ہی فوت ہوچکے تھے،ہم دو بھائی اور چار بہنیں ہیں،میرے والد سرکاری ملازم تھے،والد صاحب کے انتقال کےبعد ان کی پنشن والدہ کے نام سے جاری ہوئی،والد صاحب کی پنشن والدہ کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتی رہتی تھی،گھر میں کوئی خوشی اور غمی کا موقع ہوتا تووالدہ کی اجازت اور رضامندی سے پنشن کی رقم کو استعمال کیا جاتا تھا،ورنہ بینک میں جمع ہوتی رہتی تھی،والدہ کا 2015ءمیں انتقال ہوگیا،والدہ کے انتقال کے بعد تمام عاقل بالغ ورثاء کی اجازت اور رضامندی سے اس پنشن کی رقم سے ایک بہن کی شادی کردی گئی اور باقی رقم تمام بھائی اور بہنوں میں سب کے حصوں کے حساب سے تقسیم کردی گئی،بہن کا ایک حصہ اور بھائی کے دو حصے۔

والدہ کے انتقال کے بعد2015ءسےوالد مرحوم کی پنشن میری چھوٹی غیر شادی شدہ بہن کے نام سے جاری ہوئی،اب مارچ2021ء میں اس بہن کی شادی ہوگئی اور پنشن وصول ہونا بند ہوگئی،اس بہن نے 6سال تک جو پنشن وصول کی ،وہ جمع ہوتی رہی اور اسی سے اس بہن کی شادی کی گئی۔

اب پوچھنایہ ہے کہ پنشن کی جو رقم اس بہن کےاکاؤنٹ میں باقی بچی ہے،وہ کس کی ہوگی؟صرف اس بہن کی ؟یا پھر پہلے کی طرح سب بھائی بہنوں میں تقسیم ہوگی؟اور کیا ان باقی پیسوں سے اس بہن کی شادی کے بعد کے معاملات یعنی ڈلیوری کے اخراجات یا ڈلیوری کے بعد بہن کو کچھ لینے دینے کے اخرجات کیے جاسکتے ہیں؟

جواب

واضح رہےکہ کسی شخص کی وفات کے بعدحکومت یا متعلقہ ادارے کی طرف سےاس کی پنشن کی رقم جس کسی کے نام سےجاری ہوتی ہے، وہی اس کا مالک ہوتا ہے،اس میں وراثت کے احکام جاری نہیں ہوتے،کیوں کہ  وہ پنشن کی رقم حکومت یا متعلقہ ادارے کی طرف سے ایک قسم کا عطیہ اور انعام ہوتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد صاحب کی وفات کے بعدجب ان کی پنشن سائل کی والدہ کے نام سےجاری ہوئی،تواپنی زندگی میں سائل کی والدہ ہی اس پنشن کی مالکہ تھیں،البتہ ان کی وفات کے بعد ان کے اکاؤنٹ میں جمع شدہ  پنشن کو ان کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کرنا درست تھا۔اوراس کے بعدجب سائل کے والد مرحوم کی پنشن سائل کی چھوٹی بہن کے نام سے جاری ہوئی  ،تو وہ پنشن  اسی بہن کی ملکیت ہے،اس کو میراث میں تقسیم نہیں کیا جائے گا اور وہ بہن اس پنشن میں اپنی مرضی کے مطابق جو چاہے اورجس طرح چاہےجائز تصرف کرسکتی ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو ‌حق ‌للمورث على ما قال عليه الصلاة والسلام من ترك مالا أو حقا فهو لورثته."

(کتاب الحدود، ج:7، ص:57، ط:سعید)

امداد الفتاوی میں اس مسئلہ کے متعلق مذکور ہے:

"چونکہ میراث اموالِ مملوکہ میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسان سرکار کا ہے  بدونِ قبضہ مملوک نہیں ہوتا ،لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں  میراث جاری نہیں ہوگی ،سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہے  تقسیم کردے۔"

(ج:4،ص:342،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"قانونی اعتبار سے جو مستحق ہو،پنشن اسی کو ملے گی۔"

(ج:20،ص:404،ط:دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100627

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں