مجھ سے اکثر لوگ آکر کئی نوعیت کے معاملات میں مشاورت کرتے ہیں،اپنے حالات بتاتے ہیں وغیرہ، کبھی یہ صراحت بھی کرتے ہیں کہ آپ آگے نقل نہیں کریں گے یا یہ کہ یہ بات امانت ہے،تو کیا میں اگر اس شخص کو مبہم رکھ کر بطورِ مثال یا بطور ِنصیحت کسی دوسرے کے سامنے نقل کروں، جس میں جس کی بات ہو اس کو جاننے پہچاننے کا کوئی احتمال نہ ہو ، تو کیا ایسا کرنا خیانت تو نہیں ہوگا؟
اگر آپ کو کوئی شخص اپنے متعلق کوئی بات بتائے اور اس بات میں عوام لوگوں کے لیے عبرت اور نصیحت ہو تو اُس شخص کو اس طرح مبہم رکھتے ہوئے کہ کسی بھی طرح اس کے پہچانے جانے كا احتمال نہ ہواُس کی بات کو بطورِ نصحیت آگے کسی اور کے سامنے بیان کرنے کی گنجائش ہے۔
المفاتیح فی شرح المصابیح میں ہے:
"وقال: "المجالس بالأمانة إلا ثلاثة مجالس: سفك دم حرام، أو فرج حرام، أو اقتطاع مال بغير حق".
قوله: "المجالس بالأمانة" يعني: يجب على أهل المجلس أن يحفظوا سر أهل المجلس، لا يفشون ما جرى في المجلس من الأحاديث، وهذا إذا كان ذلك الحديث حديثا يكره صاحبه إفشاءه."
(کتاب الآداب، باب الحذر والتأني في الأمور، 248/5، ط: دار النوادر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144405100042
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن