بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

کسی کی قبر میں دوبارہ تدفین


سوال

میرے والد صاحب کی قبر 35 سال سے پکی بنی ہوئی تھی جس کی دیکھ بھال میں خود کرتا تھا اور گورکن کو بھی مقرر کیا ہوا تھا،میں مہینے میں جاتا تھا اور گورکن  کو ہدیہ بھی کرتا رہا ہوں،لیکن آج مؤرخہ 29 جولائی کو گیا تو دیکھا کہ اس کو مسمار کرکے اس میں 25 جولائی کو کسی اور کی تدفین کردی گئی ہے ،معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ میرے چھوٹے بھائی کی ہے جس کے انتقال کی خبر خاندان میں کسی کو نہیں دی گئی،یہ سب کام بھائی کی بیگم  اور بچوں نے غلط بیانی سے کیا جس کی مجھے بہت تکلیف ہوئی ،اس وقت بہت ذہنی اذیت میں مبتلا ہوں۔

کیا ان کا اس طرح کرنا صحیح ہے؟اب کیا کیا جائے؟

 

 

جواب

پرانی قبر میں نئی میت کو رکھنا صرف اس صورت  میں جائز ہے جب پرانی  قبراتنی پرانی ہو جائے کہ میت بالکل مٹی بن جائے، تو اس قبر میں  دوسری میت کو دفن کرنا درست ہے، اگر پرانی میت مٹی نہیں بنی تو اس میں دوسری میت کو دفن کرنا جائز نہیں ہے۔اور اس  سلسلے میں شریعت میں کوئی مدت متعین نہیں بلکہ جب تک پرانی میت کی جسم بالکل مٹی نہ ہوجائے تب تک بلاوجہ اس قبر کو کھولنا جائز نہیں اور میت کے گلنےاور ختم ہونے  کا مدار اس علاقے کے موسم پر ہے   ۔اگر تدفین کو   اتنی مدت ہوچکی ہو کہ  اب غالب گمان یہ ہو کہ میت کا جسم مٹی  ہوچکا ہوگا تو اس  صورت میں اس قبر میں میں کسی اور کو دفن کرنا جائز ہے۔

لہذا  صورت مسئولہ میں چوں کہ سائل کے والد کی قبر کو 35 سال کا عرصہ گزرچکا ہے اتنی مدت بعد اگرچہ  اس قبر  میں  آپ کے بھائی کی تدفین  عمل میں لانا جائز تھا تاہم یہ عمل   آپ کے بھائی کی اہلیہ اور  بچوں کو  سائل اور دیگر ورثاء کو اعتماد میں لے کر باہمی مشاورت سے کرنا بہتر تھا،البتہ چوں کہ اب تدفین ہوچکی ہے   تو ان کی میت    کو دوبارہ وہاں سے  نکالنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولا يحفر قبر لدفن آخر إلا إن بلي الأول فلم يبق له عظم إلا أن لا يوجد فتضم عظام الأول ويجعل بينهما حاجز من تراب. ويكره الدفن في الفساقي ... واختلاط الرجال بالنساء بلا حاجز، وتجصيصها، والبناء عليها بحر. قال في الحلية: وخصوصا إن كان فيها ميت لم يبل؛ وما يفعله جهلة الحفارين من نبش القبور التي لم تبل أربابها، وإدخال أجانب عليهم فهو من المنكر الظاهر، وليس من الضرورة المبيحة لجمع ميتين فأكثر ابتداء في قبر واحد قصد دفن الرجل مع قريبه أو ضيق المحل في تلك المقبرة مع وجود غيرها، وإن كانت مما يتبرك بالدفن فيها فضلا عن كون ذلك ونحوه مبيحا للنبش، وإدخال البعض على البعض قبل البلى مع ما فيه من هتك حرمة الميت الأول، وتفريق أجزائه، فالحذر من ذلك اهـ: وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار ترابا ‌جاز ‌دفن ‌غيره ‌في ‌قبره وزرعه والبناء عليه اهـ. قال في الإمداد: ويخالفه ما في التتارخانية إذا صار الميت ترابا في القبر يكره دفن غيره في قبره لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية ثم دفن غيره فيه تبركا بالجيران الصالحين، ويوجد موضع فارغ يكره ذلك. اهـ."

(‌‌باب صلاة الجنازة، مطلب في دفن الميت، ج:2، ص:233، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا يخرج منه) بعد إهالة التراب (إلا) لحق آدمي ك (أن تكون الأرض مغصوبة أو أخذت بشفعة)."

(باب صلاۃ  الجنازۃ،ج:2، ص:238، ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144601102000

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں