بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کی حرام آمدنی سے عمرہ کرنا


سوال

اگر ایک انسان کی کمائی حرام ہو، تو کیا اس کے پیسوں پر ہم عمرہ کرنے جا سکتے ہیں ؟

جواب

واضح رہےکہ مالِ حرام  کا مالک اگر معلوم ہو اوروہ مالِ حرام  بغیر کسی عوض کے حاصل کیاگیاہو،جیساکہ دھوکہ ،غصب، چوری  ،رشوت وغیرہ،تو ایسامالِ حرام اصل مالک     یا اس کے ورثاء تک واپس پہنچانا ضروری ہے،اور اگر اُنہیں واپس کرنے  کی کوئی صورت ممکن نہ ہو، تو پھر وہ مالِ حرام بلانیتِ ثواب کسی مستحقِ زکات کو دینا ضروری ہے، اور اگر  مالِ حرام  کسی عوض کے بدلہ ملاہو، جیساکہ بینک کی ملازمت وغیرہ تو پھر وہ مالِ حرام بلانیتِ ثواب  مستحقِ زکات ہی کو دینا ضروری ہے، بہرحال دونوں صورتوں میں مالِ حرام جب کسی مستحقِ زکات آدمی کودی جائے، تو وہ اس کا مالک ہوگا، چاہے وہ اس سے عمرہ کرےیا کوئی اورباعثِ ثواب کام،تاہم دونوں صورتوں میں مالِ حرام ثواب کی نیت سے کسی کارِ خیر میں لگانا یاثواب کی نیت سے کسی کو دیناجائز نہیں۔

البحر الرائق میں ہے:

"ويجب ‌عليه ‌تفريغ ‌ذمته برده إلى أربابه إن علموا وإلا إلى الفقراء."

(كتاب الزكاة، ٢٢١/٢، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل ‌أنه ‌إن ‌علم ‌أرباب ‌الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(كتاب البيوع، باب بيع الفاسد، ٩٩/٥، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100269

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں