بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کے کام سے خوش ہوکر اسے پیسے دینا رشوت نہیں


سوال

سال میں دو دفعہ واپڈا پینشنر کا بائیومیٹرک ہوتا ہے،یعنی حکومت دیکھتی ہے کہ کون زندہ ہے یا فوت چکا ہے،ہماری والدہ کی پینشن ہے جو کہ پیسکو میں ہے،یعنی کہ پشاور میں ،ہمارا علاقہ چونکہ پشاور سے بہت دور ہے،واپڈا کا پینشن آفس کا ایک کلرک ہمارے علاقہ میں سے تقریبا 22 کلومیٹر کے فاصلہ پر رہتا ہے،چونکہ اس کا علاقہ ہمارے لیے پشاور جانے کے لیے فاصلہ کم پڑتا ہے،اس لیے اس نے ڈیوائس خرید ی ہے،میں اپنی والدہ کو ساتھ لیکر جاتا ہوں اس کا بائیومیٹرک  اس کے علاقہ ہی میں ہوتا ہے،چونکہ وہ اپنی طرف سے پیسے وغیرہ نہیں لیتا اس دفعہ میں نے تقریبا 500 روپے اس کو دیے تھے جوکہ اس نے مانگے نہیں تھے۔

سوال یہ ہے کہ اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟جو ایک خدمت ہے کیونکہ ان میں ایسے پینشنر حضرات بھی ہیں جو ضعیف اور بیمار ہوتے ہیں پشاور جا نہیں سکتے ۔

دوسرا سوال یہ ہے اسے کوئی چیز یا پیسے دینا جو کہ اس دفعہ ہیں جو 500 اور اس کے بچے کے لیے 100 روپے دیے ہیں،کیا یہ پیسے اس کو دینا جائز ہے؟رشوت تو نہیں ہے؟بائیومیٹرک سال میں دو دفعہ  جنوری اور جولائی میں ہوتا ہے۔

جواب

1۔ اگراس طرح ڈیوائس اپنے پاس رکھ کر سہولت دینے میں واپڈا کے قوانین کی خلاف ورزی نہ ہورہی ہوتوایسا کرنے میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے،بلکہ اگر بیمار اور ضعیف لوگوں کی خدمت وغیرہ کی نیت ہو تو اس پر اجر وثواب بھی ملے گا۔

2۔آپ نے جو رقم اپنی خوشی سے اس کو اور اس کے بچے کو دی  وہ آپ کی طرف سے اس کے اور اس کے بچے کے لیے ہدیہ،اور ہدیہ لینا دینا تو مسلمانوں میں باہمی الفت ومحبت کا ذریعہ ہے۔یہ رشوت نہیں ہے،کیونکہ رشوت کہتے ہیں کہ جو کام اس کے ذمہ ادارے کی طرف سے لازم ہے اس کے کرنے پر معاوضہ  لینا،جب کہ آپ نے جو رقم اسے دی  ہے وہ کام کے معاوضہ کے طور پر نہیں دی،نیز اس نے  کسی قسم کا مطالبہ بھی نہیں کیا،  بلکہ  آپ اپنی خوشی سے دی ہے،لہذا اس میں شرعًا کوئی حرج نہیں ہے ۔

تفسیر البحر المحیط میں ہے:

"هذه آية نهي عن الرشا وأخذ الأموال على ترك ما يجب على الآخذ فعله، أو ‌فعل ‌ما ‌يجب ‌عليه تركه."

(سورۃ النحل،ج6،ص591،ط؛دار الفکر)

کفایت المفتی میں ہے:

"رشوت کی تعریف:

"جو کام کہ خود اس پر کرنا لازم ہے اس کے کرنے پر اجرت لینایا حق کو رشوت  لے کر ناحق کردینا یہ رشوت ہے۔"

(کتاب القضاء والافتاء،ج2،ص274،ط؛دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101981

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں