بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کے انتقال پر اس کے ختم کےلیے لوگوں کا اکٹھاہونا کیساہے ؟


سوال

جب کوئی شخص انتقال کرتا ہے لوگ اس کے لئے ختم پڑھتے ہیں ختم وغیرہ کےلئے لوگوں کا اکٹھا ہونا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی کی فوتگی کے بعداس کےلیے ایصال ثواب جائزہی نہیں بلکہ مستحسن امرہے لیکن اس کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں ہے، جو شخص جس وقت جس دن چاہے، کوئی بھی نفلی عبادت کر کے اُس کا ثواب میت کو بخش سکتا ہے۔ لہذاکسی بھی مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لیے اعزہ و اقارب کا نفسِ قرآن کریم پڑھنااور میت کے لیے دعا کرنا جائز ہے، لیکن مروجہ طریقہ پر کوئی بھی دن متعین کرکے اجتماعی طور پر تعزیت کے لیے جمع ہونایا لوگوں کو جمع کرنا اور اس کا اعلان کرنا، پھر متعین دن میں لوگوں کا جمع ہوکر  اجتماعی قرآن خوانی کرنا، جس میں میت کے یہاں کھانے پینے کا التزام ہو اور یوں لوگوں کو باقاعدہ دعوت دے کر جمع کیاگیا ہو، ان سب باتوں کو باعثِ ثواب اور شریعت کا حصہ سمجھنا بدعت ہے اور ناجائز وممنوع ہے، ایک مزید خرابی اس میں یہ بھی ہے کہ تعزیت کے لیے آنے والوں کو اہلِ میت کے یہاں ضیافت و دعوت بھی نہیں کھانی چاہیے، کیوں کہ دعوت کا کھانا تو خوشی کے موقع پر مشروع ہے نہ کہ غم کے موقع پر، اسی لیے فقہاء نے تعزیت کے موقع پر کھانے کی دعوت کو مکروہ اور بدعتِ مستقبحہ قرار دیا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عندأهل السنةوالجماعة  كذا في البدائع."

( حاشیة ردالمحتارعلي الدرالمختار،باب الحج عن الغیر۲/ ۲۴۳ ط: سعيد)

فتاوی  عالمگیری میں ہے:

"الأصل فيهذا الباب أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره  صلاة كان أو صوما أو صدقة أو غيرها كالحج وقراءة القرآن والأذكار."

       ( الفتاوی الھنديه،الباب الرابع عشرفی الحج عن الغیر۱/۲۵۷ ط:ماجدیة)

سنن ابی داؤدمیں ہے :

"سمعت عكرمة يقول كان ابن عباس يقول إن النبى -صلى الله عليه وسلم-نهى عن طعامالمتباريين أن يؤكل."

( سنن ابی داؤد ۲/ ۴٠۲ ط:دارالكتاب العربي)

سنن ابن ماجہ میں ہے :

"عن جرير بن عبد الله البجلي ، قال : كنا نرى الاجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام من النياحة."

( سنن ابن ماجه ۲/۵۳۸ ط:مكتبۃ ابی المعاطی)

فتاوی شامی  میں ہے :

"مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت  وقال أيضا ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة ۔

 وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة اه وفي البزازية ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث."

(حاشیة ردالمحتارعلي الدرالمختار ۲/ ۲۴٠ ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101238

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں