بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر دعوت کے کسی کے ہاں کھانا کھانا


سوال

 ہماری دکان کے پاس ہمارا ایک پڑوسی رہتا ہے جو ہفتے میں 3 یا 4 دفعہ ہمارے پاس کھانا کھانے آجاتا ہے بغیر دعوت کے جو ہمیں   بالکل اچھا نہیں لگتا، تو کیا اس طرح بغیر دعوت کے کسی سے کھانا جائز ہے یا نہیں اور کیا اس طرح روز کرنے سے گنا ہ ملےگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کسی کے ہاں بغیر دعوت کے جانا اور کھانا کھانا جائز نہیں ہے،خصوصاً جب کہ  صاحبِ دعوت بن بلائے پہنچ جانے سے اور بغیر اجازت کھانا کھانے سے  ناراض بھی نہ ہوتا ہو،لہذا اس سے اجتناب لازمی ہے، بصورتِ دیگر اس فعل کا مرتکب گناہ گار ہوگا؛ سائل کو چاہیےکہ کسی کے ذریعے ان تک یہ  بات پہنچادیں، تاکہ وہ بعد میں آنے سے گریز کرے۔

 حدیث شریف میں ہے:

"قال عبد الله بن عمر: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "‌من ‌دعي ‌فلم ‌يجب فقد عصى الله ورسوله، ومن دخل على غير دعوة دخل سارقا وخرج مغيرا."

(السنن أبي داود ‌‌،  كتاب الأطعمة، باب ما جاء في إجابة الدعوة،  ج:5، ص: 569 ، الرقم:3739، ط:دار الرسالة العالمية)

ترجمہ:"نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے ،جس کو دعوت دی گئی ،اور اس نے دعوت قبول نہیں کی ،تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی، اورجو شخص بغیر دعوت کے (کھانے کے لیے ) گیا، تو وہ چور بن کر داخل ہوا ،اور لٹیرا بن کر واپس ہوا."

الموسوعة الفقهية میں ہے:

"لا يجوز أن يدخل إلى الولائم وغيرها من الدعوات من لم يدع إليها ، فإن في هذا دناءة ومذلة ، ولا يليق ذلك بالمؤمن ، وفي الحديث من رواية ابن عمر مرفوعا " من دخل على غير دعوة دخل سارقا وخرج مغيرا"  ومن يفعل ذلك يسمى الطفيلي ۔ وعلى هذا فالتطفل حرام عند جمهور الفقهاء ، ما لم يكن غير المدعو تابعا لمدعو ذي قدر يعلم أنه لا يحضر وحده عادة ، فلا يحرم ، لأنه مدعو حكما بدعوة متبوعه."

(الموسوعة الفقهية الكويتية  ،دعوة،التطفل على الدعوات،  ج:20، ص:335، ط:دارالسلاسل الكويت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144505100707

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں