بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کے ایک دوروپے بھی ناحق لیناجائزنہیں


سوال

 ایک شخص نے اپنا بجلی کا بل ادا کرنے کے لیے بجلی کا بل  مع  پانچ ہزار روپے والے کرنسی نوٹ کے اپنے دوست کو  دیا۔ وہ خود اپنے کام کی مصروفیت کے باعث نہیں جاسکتاتھا اور  بل وقت پر ادا کرنے کی اس دن آخری تاریخ تھی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ بل جمع کرنے والے کلرک یا کیشئر کے پاس بقول اس کے  کھلے پیسے نہیں تھے جس سے وہ بقایاپیسے ادا کرے۔ مثلًا: بجلی کا بل تین ہزار پانچ سو اکسٹھ (3،561) روپے کا تھا اور اس کے پاس بقایا 1،439روپے نہیں تھے۔ کافی انتظار کروانے کے بعد کلرک یا کیشئر صاحب نے ایک ہزار چار سو تیس (1430) واپس کیے۔ نو روپے (Rs 9) کم دیے، اور کوئی وجہ بھی نہیں بتائی۔ بجلی کا بل ادا کرنے والے نےبھی کوئی سوال نہیں کیا؛ کیوں کہ اس کے پاس ایک روپے کا سکہ نہیں تھا کہ  وہ ادا کرکے دس روپے وصول کرتا، جب کہ کیشئر حضرات بل ادا کرنے والوں کی جو بقایا رقم 1،2،3،4،6،7،8،9میں ہوتی ہے وہ واپس نہیں کرتے۔

اب 1روپیہ کے بجائے 9 روپے زیادہ لینا جو غالبًاسود میں شمار ہوگا،اس سود کا گناہ کس پر ہے؟اور سودی معاملہ میں اَن جانے میں شامل ہونے کا گناہ بھی بجلی کا بل ادا کرنے والےکے ذمہ ہے؟ وہ شخص بہت پریشان ہے؛ کیوں کہ  یہ  مسئلہ اس رمضان المبارک میں پیش آیا ہے اور وہ شخص اللہ تعالیٰ کے حضور بھی توبہ کرچکا ہے۔ برائے مہربانی اس مسئلہ کا حکم بیان کریں۔

جواب

کلرک یاکیشئرصاحبان اگرواقعی  بل اداکرنے والے حضرات کی بقایارقم مثلا:5یا8روپےواپس نہیں کرتے تواس کاوبال ان ہی پرہوگا ،البتہ اگرکوئی شخص اپنی خوشی سے اپنابقایا 10،5روپے چھوڑدےیاجہاں پرتھوڑےپیسے چھوڑنے کاعام عرف ورواج ہو یاکھلا پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اصحاب معاملہ ایک دوسرےکی کمی بیشی کوخوشی سےمعاف کردیتےہوں  تواس میں کوئی حرج نہیں بلکہ اچھاہے تاکہ معاملہ بالکل صاف صاف ہوورنہ کسی کاایک روپیہ بھی،ناحق لینا جائزنہیں ہے۔

لہٰذاصورت مسئولہ میں کلرک نے جو9روپے کم دیےہیں اورکوئی وجہ بھی نہیں بتائی ہے تواس نےیہ 9روپے ناحق لیےہیں جوکہ شرعًاناجائزاورسخت گناہ کاکام ہے۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادمبارک ہے کہ "کسی مسلمان کامال لینا اس کے رضامندی کے بغیرحلال نہیں ہے"،البتہ بل اداکرنے والےپر اس کاکوئی گناہ نہیں ہےاورنہ ہی مذکورہ معاملہ سودکامعاملہ ہے۔

شعب الایمان میں ہے:

"لا يحل لامرئ أن يأخذ عصا أخيه بغير ‌طيب ‌نفسه وذلك لشدة ما حرم الله عز وجل مال المسلم على المسلم."

(الباب الثامن والثلاثون :قبض اليدعن الاموال المحرمة،ج:4،ص:388،ط:دارالكتب العلمية بيروت)

ترجمہ:"کسی کے لیے حلال نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی کی لاٹھی اس کے خوش دلی کے بغیراٹھائےاوریہ اس لئے کہ اللہ تعالی نے ایک مسلمان کامال دوسرے مسلمان پرسخت حرام کیاہے۔"

البحرالرائق میں ہے:

"إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير ‌سبب ‌شرعي."

(كتاب الحدود،باب:في حدالقذف،فصل:في التعزير،ج:5،ص:44،ط:دارالكتاب الاسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101794

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں