بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کام کی ذمہ داری اٹھا کر کسی دوسرے سے مفت کروانے کی صورت میں اجرت کا حکم


سوال

 زید کو خالد نے خراب موبائل دیا کہ مارکیٹ سے صحیح کروا دو، پھر اس نے پوچھا کہ کتنے پیسے لگیں گے؟ زید نے کہا کہ بتادوں گا۔ لیکن زید کا ایک قریبی تعلق والا ہے اس سے وہ موبائل فری میں صحیح کروالے گا۔ اب زید کیا خالد سے اپنی مرضی سے پیسے وصول کر سکتا ہے؟

جواب

 اگر  زید موبائل ریپیئرنگ کا کام کرتا ہے،  اس  لیے  اس نے  خالد کے موبائل کو صحیح کروانے کی ذمہ داری اٹھائی، تو ایسی صورت میں اب وہ کسی سے فری میں صحیح کروادے یا اجرت پر، مارکیٹ میں صحیح کروادے یا گھر پر،  بہر صورت  اجر مثل  (یعنی مارکیٹ میں ایسے کام کی جو اجرت لی جاتی ہو) وہ  زید  کے لیے  خالد کے ذمے  لازم ہوگی، اور  اگر زید موبائل ریپرنگ کاکام نہیں کرتا، تو ایسی صورت   میں زید کی حیثیت وکیل کی ہوگی،  لہذا اگر وہ کسی سے  اجرت پر صحیح کروائے گا تو اس کے  لیے اتنی ہی اجرت   خالد سے لیناصحیح ہوگا جتنے میں اس نے موبائل ٹھیک کروایا ہے، اس سے زیادہ اجرت لینا جائز نہیں ہوگا اور اگر فری میں صحیح کروائے  گا  تو پھر کوئی اجرت نہیں لے سکتا۔  البتہ   زید اگر موبائل ریپیئرنگ کا کام نہیں کرتا، لیکن وضاحت سے پہلے ہی اجرت مقرر کرتا ہے کہ اتنے میں موبائل ٹھیک کروادوں گا، اور پھر کسی سے مفت میں کروادیتا ہے، تو ایسی صورت میں  زید کے  لیے مقررہ اجرت لینا جائز ہوگا۔

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

"(وإن أطلق له العمل فله أن يستأجر من يعمله) ؛ لأن المستحق عملٌ في ذمته، ويمكن إيفاؤه بنفسه وبالاستعانة بغيره، بمنزلة إيفاء الدين، والعادة جارية أن الصناع يعملون بأنفسهم وبأجرائهم".

(اللباب في شرح الكتاب: كتاب الإجارة ،2/ 102، ط. المكتبة العلمية، بيروت)

مجمع الانہر میں ہے:

"وإذا أطلق) المستأجر (العمل للصانع) ولم يقيد بعمله (فله أن يستعمل غيره) كما إذا أمر أن يخيط هذا الثوب بدرهم، فاللازم عليه العمل سواء أوفاه بنفسه أو باستعانة غيره كالمأمور بقضاء الدين".

(مجمع الأنهر: كتاب الإجارة، 2/ 374، ط. دار إحياء التراث العربي)

البنایہ شرح الہدایہ  میں ہے:

 (وإن أطلق له العمل) ش: مثل أن يقول: خطْ هذا الثوب أو اصنعه. م: (فله أن يستأجر من يعمله؛ لأن المستحق عمل في ذمته ويمكن إيفاؤه بنفسه وبالاستعانة بغيره) ش: لأن المقصود هو العمل وقد حصل. م: (بمنزلة إيفاء الدين). ش: فإن الإيفاء يحصل بالمديون وبالتبرع من غيره".

(البناية شرح الهداية: كتاب الإجارة، 10/ 244، ط. دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولى: 1420 هـ =2000 م)

درر الحکام میں ہے: 

" إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة، أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة".

(درر الحكام شرح مجلة الأحكام: كتاب الوكالة، الباب الثالث في بيان احكام الوكالة، 3/ 573، رقم المادة(1463)، ط. دارالجيل)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408100406

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں