بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کام کے کرنے پر کفر کی قسم کھانا


سوال

اگر کوئی شخص اللہ کی قسم کھا کر یہ کہے کہ اگر فلاں کام کروں تو کفر پر خاتمہ ہو اور پھر وہ کام کر لے تو کیا توبہ کرنے سے یا کفارہ اداکرنے سے قسم واپس ہو جاۓ گی یاپھراس کے لیے کیا کرنا چاہیے ؟

جواب

اگر کسی شخص نے کسی کام کے کرنے پر کفر کی قسم کھائی اور کفر کی قسم کھاتے وقت اس کا مقصد صرف اور صرف قسم میں سختی پیدا کرنا تھا اور پھر وہ کام کر بھی لیا تو قسم کھانے والا شخص  کافر تو نہیں ہوگا البتہ قسم توڑنے پر قسم کا کفارہ ادا کرنا لازم ہوگا۔

 قسم کا کفارہ یہ ہے کہ  دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دیں  اور جن مسکینوں کو صبح کھانا کھلایا ان کو شام کو بھی کھلادیں یا دس مسکینوں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا دے دیں۔ اور اگر کھانا کھلانے یا ایک ایک جوڑا کپڑا دینے کی استطاعت نہیں تو قسم کے کفارے کی نیت سے مسلسل تین روزے رکھ لیں۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوٰی الهندیة) میں ہے:

"ولو قال: إن فعل كذا فهو يهودي، أو نصراني، أو مجوسي، أو بريء من الإسلام، أو كافر، أو يعبد من دون الله، أو يعبد الصليب، أو نحو ذلك مما يكون اعتقاده كفرا فهو يمين استحسانا كذا في البدائع. حتى لو فعل ذلك الفعل يلزمه الكفارة، وهل يصير كافرا اختلف المشايخ فيه قال: شمس الأئمة السرخسي - رحمه الله تعالى -: والمختار للفتوى أنه إن كان عنده أنه يكفر متى أتى بهذا الشرط، ومع هذا أتى يصير كافرا لرضاه بالكفر، وكفارته أن يقول: لا إله إلا الله محمد رسول الله، وإن كان عنده أنه إذا أتى بهذا الشرط لا يصير كافرا لا يكفر".

(کتاب الأیمان، الباب الثاني فيما يكون يمينا وما لا يكون يمينا، الفصل الأول في تحليف الظلمة وفيما ينوي الحالف غير ما ينوي المستحلف، 2/ 52 ط:مکتبة رشیدیة)

شرح ملّا علی القاری علی الفقه الأ کبرمیں ہے:

"و إذا قال هو یهودي أو نصراني أو مجوسي أو بريء من الإسلام أو ما أشبه ذلك، إن فعل کذا علی أمر في المستقبل فهو یمین عندنا، والمسئلة معروفة، فإن أتی بالشرط وعندہ أنه یکفر کفر، و إن کان عندہ أنه لایکفر متی أتی بالشرط لایکفر متی أتی به، وعلیه کفارۃ الیمین أي لاغیر، ویکون قصدہ بذلك الکلام المبالغة عن امتناعه وتقبیحه لذلك المرام، و إن حلف بهذہ الألفاظ علی أمر في الماضي، وعندہ أنه لایکفر کاذبا لا کفارۃ علیه لأنه غموس أي بغمس صاحبه في النار لکونه كبیرۃ ".

(مطلب في إیراد الألفاظ المکفرۃ، فصل في الکفر صریحا وکنایة، ص:191، ط: مکتبة رحمانیة)

فتاویٰ شامی (الدر المختار مع رد المحتار) میں ہے:

"(و) القسم أيضا بقوله (إن فعل كذا فهو)  ...  شريك للكفار أو (كافر) فيكفر بحنثه لو في المستقبل، أما الماضي عالما بخلافه فغموس. واختلف في كفره (و) الأصح أن الحالف (لم يكفر) سواء (علقه بماض أو آت) إن كان عنده في اعتقاده أنه (يمين وإن كان) جاهلا.(قوله : فيكفر بحنثه) أي تلزمه الكفارة إذا حنث إلحاقا له بتحريم الحلال، لأنه لما جعل الشرط علما على الكفر وقد اعتقده واجب الامتناع وأمكن القول بوجوبه لغيره جعلناه يمينا نهر".

(کتاب الأیمان، ج:3، ص:717- 718،  ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308101826

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں