بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کام کے کرنے پرتوحید کا انکار کر دینے کی قسم کھانا اور اس قسم کو توڑ دینا


سوال

اگر کوئی بندہ  قرآن پر ہاتھ رکھ کر یہ قسم کھائے کہ" میں فلاں بندے سے نہیں بولوں گا،  اگر بولا تو میں نے اللّٰہ پاک کی توحید کا انکار کیا" اور بعد میں قسم توڑ دی،  اور پھر کہے :"میں اپنے فلاں دوست کو تنگ نہیں کروں گا ، اگر تنگ کیا تو  میں مرتد ہوگیا" اب آپ رہ نمائی فرمائیں،  میں دونوں قسموں توڑ کر بہت پریشان ہوں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے مذکورہ کلمات " میں فلاں بندے سے نہیں بولوں گا،  اگر بولا تو میں نے اللّٰہ پاک کی توحید کا انکار کیا" اور "میں اپنے فلاں دوست کو تنگ نہیں کروں گا ، اگر تنگ کیا تو  میں مرتد ہوگیا"   کہنے  سے قسم منعقد ہوگئی تھی ، قسم توڑ دینے کی وجہ سے اس پر کفارہ لازم ہے،  تاہم اس کے ایمان پر اس سے کوئی اثر نہیں ہوا ہے، آئندہ ایسے کلمات کہنے سے احتیاط کرے۔

ایک  قسم کا کفارہ یہ ہے کہ  دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دیں  یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دیں ( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم ) اور اگر جَو دیں تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دیں،  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دیں۔ اور اگر سائل کی مالی حالت ایسی ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے  اور نہ کپڑے دے سکتا ہے  تو کفارہ کی نیت سے مسلسل تین روزے رکھ لے۔

ارشادِ باری تعالی ہے:

(فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَیْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ١ وَ احْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْ).

(المائدة، 89)

ترجمہ: "سو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا دینا اوسط درجہ کا جو اپنے گھر والوں کو کھانے کو دیا کرتے ہو یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا  اور جس کو مقدور نہ ہو تو تین دن کے روزے ہیں یہ کفارہ ہے تمہاری قسموں کا جب کہ تم قسم کھالو اپنی قسموں کا خیال رکھا کرو."(بیان القرآن)

"الفتاوي الهندية"میں ہے:

"ولو قال: إن فعل كذا فهو ‌يهودي، أو ‌نصراني، أو مجوسي، أو بريء من الإسلام، أو كافر، أو يعبد من دون الله، أو يعبد الصليب، أو نحو ذلك مما يكون اعتقاده كفرا فهو يمين استحسانا كذا في البدائع. حتى لو فعل ذلك الفعل يلزمه الكفارة، وهل يصير كافرا اختلف المشايخ فيه قال: شمس الأئمة السرخسي - رحمه الله تعالى -: والمختار للفتوى أنه إن كان عنده أنه يكفر متى أتى بهذا الشرط، ومع هذا أتى يصير كافرا لرضاه بالكفر، وكفارته أن يقول: لا إله إلا الله محمد رسول الله، وإن كان عنده أنه إذا أتى بهذا الشرط لا يصير كافرا لا يكفر، وهذا إذا حلف بهذه الألفاظ على أمر في المستقبل."

(كتاب الأيمان، الباب الثاني فيما يكون يمينا وما لا يكون يمينا وفيه فصلان، الفصل الأول في تحليف الظلمة وفيما ينوي الحالف غير ما ينوي المستحلف، ج:2، ص:54، ط:دار الفكر) 

 "الدر المختار مع رد المحتار" میں ہے:

"(و) القسم أيضا بقوله (إن فعل كذا فهو) يهودي أو نصراني أو فاشهدوا علي بالنصرانية أو شريك للكفار أو (كافر) فيكفر بحنثه لو في المستقبل، أما الماضي عالما بخلافه فغموس. واختلف في كفره (و) الأصح أن الحالف (لم يكفر) سواء (علقه بماض أو آت) إن كان عنده في اعتقاده أنه (يمين وإن كان) جاهلا. و (عنده أنه يكفر في الحلف) بالغموس وبمباشرة الشرط في المستقبل (يكفر فيهما) لرضاه بالكفر، بخلاف الكافر.

(قوله وعنده أنه يكفر) عطف تفسير على قوله جاهلا. وعبارة الفتح: وإن كان في اعتقاده أنه يكفر به يكفر لأنه رضي بالكفر حيث أقدم على الفعل الذي علق عليه كفره وهو يعتقد أنه يكفر إذا فعله اهـ. وعبارة الدرر: وكفر إن كان جاهلا اعتقد أنه كفر إلخ، وبه ظهر أن عطف وعنده بالواو هو الصواب، وما يوجد في بعض النسخ من عطفه بأو خطأ لأنه يفيد أن المراد بالجاهل هو الذي لا يعتمد شيئا، ولا وجه لتكفيره لما علمت من أنه إنما يكفر إذا اعتقده كفرا ليكون راضيا بالكفر، أما الذي لا يعتقد كذلك لم يرض بالكفر حتى يقال إنه يكفر فافهم (قوله يكفر فيهما) أي في الغموس والمنعقدة. أما في الغموس ففي الحال، وأما في المنعقدة فعند مباشرة الشرط كما صرح به في البحر قبيل قوله وحروفه ح.

ولا يقال: إن من نوى الكفر في المستقبل كفر في الحال.

وهذا بمنزلة تعليق الكفر بالشرط. لأنا نقول: إن من قال إن فعلت كذا فأنا كافر مراده الامتناع بالتعليق ومن عزمه أن لا يفعل فليس فيه رضا بالكفر عند التعليق بخلاف ما إذا باشر الفعل معتقدا أنه يكفر بمباشرته فإنه يكفر وقت مباشرته لرضاه بالكفر. وأما الجواب بأن هذا تعليق بما له خطر الوجود فلا يكفر به في الحال، بخلاف قوله إذا جاء يوم كذا فهو كافر فإنه يكفر في الحال لأنه تعليق بمحقق الوجود، ففيه أنه لو علقه بما له خطر يكفر أيضا كقوله إن كان كذا غدا فأنا أكفر فإنه يكفر من ساعته كما في جامع الفصولين لأنه رضي في الحال بكفره المستقبل على تقدير حصول كذا فافهم. وعلى هذا لو كان الحالف وقت الحلف ناويا على الفعل وقال إن فعلت كذا فهو كافر ينبغي أن يكفر في الحال لأنه يصير عازما في الحال على الفعل المستقبل الذي يعتقد كفره به."

(كتاب الأيمان، ج:3، ص:717-718، ط:سعید )

بہشتی زیور میں ہے:

"مسئلہ:  یوں کہا اگر فلانا کام کروں تو بے ایمان ہو کر مروں مرتے وقت ایمان نہ نصیب ہو بے ایمان ہو جاؤں یا اس طرح کہا اگر فلانا کام کروں تو میں مسلمان نہیں تو قسم ہو گئى اس کے خلاف کرنے سے کفارہ دینا پڑے گا اور ایمان نہ جائے گا۔"

(حصہ سوم ، ص: 145، قسم کھانے کا بیان، ط: توصیف پبلیشر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405100128

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں