بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کا یومِ پیدائش اور یومِ وفات منانا،یومِ حضرت عمررضی اللہ منانے کاحکم


سوال

کیا شریعت میں کسی شخص کی پیدائش یا وفات کا دن منانا درست ہے؟ کیا آج کل جو بات چل رہی ہے کہ یوم عمر منایا جائے حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی  وفات کی تاریخ میں، تو اس دن کے منانا کیا شرعی اعتبار سے درست ہوگا؟ اگر یوم عمر درست ہو تو پھر عید میلاد النبی منانے میں کیا قباحت ہے؟ براہ کرم تسلی بخش جواب سے نوازیں۔ 

جواب

کسی شخص کی پیدائش والے دن کو ہر  سال ’’یوم ِ پیدائش ،سالگرہ اوربرتھ ڈے  ـ‘‘ کے نام سے منانا،یہ ایک غیر اسلامی  اور مغربی تہذیب کی رسم اور ان کی نقالی  ہے ،اور اسی طرح کسی شخص کی  وفات والے دن   کو ہرسال ’’برسی  یا یومِ وفات ‘‘ کے عنوان سے منانا  بھی غیر اسلامی طریقہ ہے ،مذکورہ دونوں رسوم  کا شریعتِ مطہرہ میں کوئی ثبوت نہیں ،اس لیے ان رسوم کا التزام کرنا شرعاً بدعت ہے،لہٰذا انبیاء کرام  علیہم السلام ،خلفاء راشدین،اہلِ بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین اور  کسی بھی شخصیت کا یوم پیدائش /یوِمِ وفات منانا شرعاً جائز نہیں ۔البتہ اگر ان شخصیات سے اپنی محبت کااظہار کرنا ہے توان کے مشن اورمقصد ِ زندگی پر عمل پیرا ہونے کاعزم لیے ان مقاصد کواپنی عملی زندگی میں  اپنانا چاہیے ،ایام و اوقات کا تعین  کیے بغیر،مذکورہ بالا رسمی اورتکلیف دہ اعمال سے اجتناب کرتے ہوئے برائے ترغیب اور تبلیغ ان شخصیات  کے محاسن ذکر کرنے میں کوئی قباحت نہیں ۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من تشبه بقوم فهو منهم» " رواه أحمد، وأبو داود.

(من تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب."

(کتاب اللباس،الفصل الثانی،ج:8،ص:222،ط:مکتبہ حنیفیہ)

بخاری شریف میں ہے:

"حدثنا ‌يعقوب: حدثنا ‌إبراهيم بن سعد، عن ‌أبيه، عن ‌القاسم بن محمد، عن ‌عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌من ‌أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد» رواه عبد الله بن جعفر المخرمي، وعبد الواحد بن أبي عون، عن سعد بن إبراهيم".

(كتاب الصلح،باب إذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود،ج:3،ص:184،ط:السلطانية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100088

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں