بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

كسي كا پهل دار درخت چوری كر كے اس كا پهل استعمال كرنے كا حكم


سوال

 ایک شخص نے اپنے گھر میں پھل دار درخت کا پودا لگایا جسے ایک دوسرے شخص نے چوری کرلیا اور اپنے گھر میں لگالیا اور وہ اس   کےکھاد پانی کا خیال رکھتا ہے، اب جب اس درخت میں پھل آئے گا تو اس چوری کرنے والے کیلئے اس درخت کا پھل کھانے کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کافعل   انتہائی برا ہے،مذكوره شخص پر  لازم ہے کہ یا تو اسی  جیسا درخت خرید کر جس کا درخت چوری کیا ہے اس کو دے ،یا اس کی قیمت اسے ادا کرے،نیز  چوری کرنے والے کا اس درخت کے پھل کو استعمال کرنا جائز نہیں ،بلکہ اس کو صدقہ کرنا لازم ہے ،البتہ چوری کرنے والا اگردرخت کے اصل مالک کو  اس پھل کے استعمال کرنے پرراضی کر لے (درخت کی قیمت دے کر یا کسی بھی طریقے سے)تو پھر اس کا مذکورہ درخت سے نفع حاصل کرنا جائز ہو گا۔

ایک حدیثِ مبارک میں ہے کہ:

’’رسول اللہ ﷺ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے دریافت کیا کہ: ”تم مفلس کس کو سمجھتے ہو؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور دینار نہ ہوں، اور مال واسباب نہ ہوں، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن آئے اور اس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں، اور روزے بھی رکھے ہوں،  اور زکات بھی دیتا رہا ہو، مگر اس کے ساتھ اس نے کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا ناحق مال کھایا تھا، ناحق خون بہایا تھا، کسی کو مارا تھا،  اب قیامت میں ایک اس کی یہ نیکی لے گیا اور دوسرا دوسری نیکی لے گیا، یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں، لیکن پھر بھی حق دار بچ گئے، تو پھر باقی حق داروں کے گناہ  اس پر لاد دیے جائیں گے، یہاں تک کہ وہ گناہوں میں ڈوب کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا، یہ ہے حقیقی مفلس“۔

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جس نے کسی مسلمان بھائی کے ساتھ زیادتی کی ہو، خواہ عزت و آبرو کے حوالے سے یا مال کے حوالے سے، پھر وہ اس (صاحبِ حق) سے معاف کروالے قبل اس کے کہ (قیامت میں) اس کا مواخذہ کیا جائے،  (کیوں کہ) وہاں دینار اور درہم نہیں ہوں گے، (بلکہ) اگر  اس کی نیکیاں ہوں گی تو اس کی نیکیاں لے لی جائیں گی، اور اگر نیکیاں نہیں ہوں گی تو ان (اصحابِ حقوق) کے گناہ اس پر لاد دیے جائیں گے۔" ـ(الترمذی)

لہذا مذکورہ شخص کو چوری سے توبہ کرنا چاہیے، اور جو  مال ناحق   چرایا ہے، اس کو واپس کرنا يا اس كا ضمان  ضروری ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے بھی توبہ واستغفار کرنا لازم ہے۔

مبسوط للسرخسی میں ہے :

"وإن غصب حنطة فزرعها ثم جاء صاحبها وقد أدرك الزرع أو هو بقل فعليه حنطةمثل حنطته، ولا سبيل له على الزرع عندنا.....(وحجتنا) في ذلك أن الزرع غير الحنطة؛ لأن الحنطة مطعوم بني آدم، والزرع بقل هو علف الدواب، وهذا الزرع حادث؛ لأنه ما لم يفسد الحب في الأرض لا ينبت الزرع، فإما أن يكون حادثا بأصل الحنطة أو بقوة الأرض والهواء أو بعمل الزارع، والأول باطل؛ لأن كونه حنطة ليس بعلة لبقائها كذلك حنطة فكيف تكون علة لحدوث شيء آخر. وقوة الأرض والهواء كذلك؛ لأنهما مسخران بتقدير الله تعالى لا اختيار لهما، فلا يصلح إضافة الحكم إليهما بنفي عمل الزارع، وهو في معنى الشرط؛ لأنه يجمع بين البذر وقوة الأرض والهواء بعمله، وقد بينا أنه يضاف الحكم إلى الشرط عند تعذر الإضافة إلى العلة كما أن الواقع في البئر يضاف هلاكه إلى الحافر، وعمله في الشرط، ولكن ما كان علة، وهو تعلة، ومشبه بغير علة لا يصلح عمله لإضافة الحكم إليه، فيكون مضافا إلى الشرط،وإذا ثبت أنه مضاف إلى عمل الزارع كان هو مكتسبا للزارع، والكسب ملك للمكتسب، وعليه ضمان ما صار مستهلكا بعمله، إلا أنه لا يطيب له الفضل في قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله، وعند أبي يوسف - رحمه الله - يطيب له الفضل؛ لأنه كسبه.

ولكنا نقول: دخل في كسبه من حيث إنه استعمل في الاكتساب ملك الغير، ولأنه من حيث الصورة هذا متولد من ذلك الأصل كما قاله الخصم، ومن حيث المعنى والحكم غيره فلاعتبار الصورة قلنا: لا يطيب له الفضل احتياطا، وعلى هذا لو غصب نواة فأنبتها أو تالة فغرسها إلا أنه روي عن أبي يوسف - رحمه الله - أنه قال في التالة: لا يحل له أن ينتفع بها حتى يؤدي الضمان، وفي الزرع والنواة له ذلك؛ لأن البذر والنواة تفسد في الأرض، فكان الزرع والشجرة كسب الغاصب من كل وجه، فيجوز له الانتفاع به قبل أداء الضمان المستهلك، وأما التالة فلا تفسد، ولكنها تنمو، وإنما جعلنا الشجرة غير التالة من حيث الحكم، فلا يحل له الانتفاع بها قبل أداء الضمان كما في الحنطة إذا طحنها. وفي ظاهر الرواية الجواب في الفصلين سواء."

(كتاب الغصب ،باب رجل غصب دار وسكنها،ج:11،ص:96،ط:دارالفكر)

بدائع الصنائع میں ہے :

"‌غصب ‌حنطة فطحنها أنه لا يحل له الانتفاع بالدقيق، حتى يرضي صاحبه ولو ‌غصب ‌حنطة فزرعها قال أبو حنيفة ومحمد: يكره له أن ينتفع به، حتى يرضي صاحبه ويتصدق بالفضل، وقال أبو يوسف لا يكره له الانتفاع به قبل أداء الضمان، ولا يلزمه التصدق بالفضل ...............وقال في الودي إذا غرسه فصار نخلا أنه يكره الانتفاع به، حتى يرضي صاحبه؛ لأن النوى يعفن ويهلك، والودي يزيد في نفسه."

(كتاب الغصب ،فصل في حكم الغصب ،ج:7 ،ص:153،ط :رشيديه)

        فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه". 

(مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا،(5/99) ط: سعید)

صحيح مسلم (4/ 1997):

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «أتدرون ما المفلس؟» قالوا: المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع، فقال: «إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة، وصيام، وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقضى ما عليه أخذ من خطاياهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار»".

فتاوی شامی میں ہے :

"الصلاة لإرضاء الخصوم لاتفيد، بل يصلي لله، فإن لم يعف خصمه أخذ من حسناته جاء: «أنه يؤخذ لدانق ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة».
(قوله: جاء) أي في بعض الكتب، أشباه عن البزازية، ولعل المراد بها الكتب السماوية أو يكون ذلك حديثاً نقله العلماء في كتبهم: والدانق بفتح النون وكسرها: سدس الدرهم، وهو قيراطان، والقيراط خمس شعيرات، ويجمع على دوانق ودوانيق؛ كذا في الأخستري حموي (قوله: ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة) أي من الفرائض لأن الجماعة فيها: والذي في المواهب عن القشيري سبعمائة صلاة مقبولة ولم يقيد بالجماعة. قال شارح المواهب: ما حاصله هذا لاينافي أن الله تعالى يعفو عن الظالم ويدخله الجنة برحمته ط ملخصاً". 

(کتاب الصلوة ،ج:1/ 438،ط؛سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101103

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں