بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کا مال چرایا ہو تو کیا اسے ایزی پیسہ کے ذریعے بغیر بتائے ہیسے بھیجے جا سکتے ہیں؟


سوال

میں ایک دکان پر کام کر رہا ہوں اور میں نے کچھ سامان چوری کیا تھا،  اب میں اس کی ادائیگی کر نا چاہتا ہوں،  اگر   سامان کے مالک کو مطلع کیے بغیر  " ایزی پیسہ“ کے ذریعےادائیگی کر دوں    تو پھر مجھ پر جو چوری کا گناہ ہے وہ ختم ہو جائے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر چوری کا سامان موجود ہے تو اس کو واپس کرنا ضروری ہے، چاہے واپس کرنے کا کوئی بھی طریقہ ہو، اور اگر وہ سامان نہیں ہےتو اس کی قیمت واپس کرنا ضروری ہے، مالک کو چوری کی اطلاع دیے  بغیر ایزی پیسہ کے ذریعے ادا کرنے سے بھی ادا ہوجائے گا، اور ساتھ ساتھ توبہ استغفار کرنا بھی لازم ہوگا تا کہ گناہ ختم ہوجائے۔

"البحر الرائق"میں ہے:

"الأصل أن ‌المستحق ‌بجهة إذا وصل إلى ‌المستحق ‌بجهة أخرى إنما يعتبر واصلا بجهة مستحقة لو وصل إليه من المستحقين عليه أما إذا وصل من جهة غيره فلا حتى أن المشتري فاسدا إذا وهب المشتري من غير بائعه أو باعه فوهبه ذلك الرجل من البائع الأول، وسلمه لا يبرأ المشتري عن قيمته، ولم تعتبر العين، واصلا إلى البائع بالجهة المستحقة لما وصل من جهة أخرى."

(كتاب البيع، باب البيع الفاسد،ج:6، ص:102، ط:دار الكتاب الإسلامي)

"رد المحتار"میں ہے:

"والحاصل أنه إن ‌علم أرباب الأموال وجب ‌رده عليهم، وإلا فإن ‌علم عين ‌الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه، وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من ‌الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما."

(كتاب البيوع، ج:5، ص:99، ط:سعيد) 

فتاوی حقانیہ میں ہے:

"مالک کو اطلاع کیے بغیر اداءِ حق سے براءت کا حکم:

سوال: زید بکر کے ہاں محنت مزدوری کرتا ہے، اس دوران اُس نے بکر کی ایک قیمتی گھڑی چُرالی، زید اب اپنے اس فعل پر نادم ہے اور بکر بھی زندہ ہے، لیکن واپس کرنے میں اگر بکر کو پتہ چل گیا تو زید کو خدشہ ہے کہ وہ میرے بے عزتی کرے گا، اب زید کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ بے عزتی بھی نہ ہو اور آخرت کے مؤاخذہ سے بھی بچ سکے؟

الجواب: کسی مسلمان کا مال اُس کی اجازت کے بغیر لینا یا اس کو چوری کرنا حرام اور ناجائز ہے اور اصل مالک کو واپس کرنا واجب ہے، اس لیے زید کو ہر حال میں گھڑی واپس کردینی چاہیے، اور اگر ظاہرًا واپس کرنے میں بے عزتی کا خطرہ ہو تو کسی خفیہ تدبیر سے پہنچادی جائے، مالک کو اطلاع دینا ضروری نہیں ہے۔"

(کتاب الغصب، عنوان: مالک کو اطلاع کیے بغیر اداءِ حق سے براءت کا حکم، ج:6، ص:393-394، ط: مکتبہ سید احمد شہید اکوڑہ خٹک)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101951

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں