بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی بچہ کو گود لینا


سوال

 میرا ایک سوال ہے کہ اگر کسی کی اولاد نہ ہو کیا وہ دوسرے بندے سے، یا اپنے بھائی وغیرہ سے اولاد گود لے سکتا ہے؟ تو کیا وہ بندہ اس کو اپنی اولاد دے سکتا ہے جس طرح اکثر لوگ کرتے ہیں مثلا ایک گھر میں دو بھائی رہتے ہیں تو ایک بھائی کی کوئی اولاد نہیں اور دوسرے بھائی کی تین چار اولاد ہیں تو وہ جس کی اولاد نہیں ہے وہ اپنے بھائی سے مطالبہ کرتا ہے کہ آپ اپنا ایک بچہ مجھے دے دو تو وہ اپنا بچہ اس کو دے دیتا ہے کہ آج سے میرا یہ بیٹا آپ کا ہوگیا؟ کیا یہ جائز ہے؟

جواب

اللہ تعالیٰ نےدنیاکی  ہر نعمت ہر انسان کوعطا نہیں کی، بلکہ اس میں فرق رکھا ہے، جس کو جو چاہا نعمت عطا کر دی، ہر آدمی کو اولاد کی نعمت کا میسر آنا ضروری نہیں، چناں چہ اگر کسی شخص کی کوئی اولاد نہ ہو  یا اولاد ہو پھر بھی وہ کسی کو  لے کر پالنا  چاہے تو اس طرح کسی بچے کو لے کر پال لینا جائز ہے، لیکن اس میں چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

ایک بات تو یہ کہ لے پالک بچوں کی نسبت ان کے حقیقی والدین ہی کی طرف کی جائے، جن کی پشت سے وہ پیدا ہوئے ہیں،  اس لیے کہ کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے شرعاً وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والے اَحکام جاری ہوتے ہیں،  البتہ گود میں لینے والے کو  پرورش ، تعلیم وتربیت  اور ادب واخلاق سکھانے کا ثواب ملے گا،  جاہلیت کے زمانہ  میں یہ دستور تھا کہ لوگ لے پالک اور منہ بولے اولاد کو حقیقی اولاد کا درجہ دیتے تھے ، لیکن اسلام نے اس تصور ورواج کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ منہ بولے  اولاد حقیقی اولاد نہیں ہوسکتے، اور   لے پالک اور منہ بولے اولاد کو ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہےاور تمام سرکاری اور غیر سرکاری کاغذات میں بچہ کی ولدیت کے خانہ میں اصل والد کا نام لکھا جائے البتہ پرورش کرنے والے کا نام بطور سرپرست لکھا جاسکتا ہے ۔

نیز اس میں  اس بات کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ اگر  گود لینے والا یا والی اس بچے کے لیے نا محرم ہو تو بلوغت کے بعد پردے کا اہتمام کیا جائے، محض گود لینے سے محرمیت قائم نہیں ہوتی۔ البتہ اگر گود لینے والی عورت کی بہن اس بچے کو رضاعت کی مدت میں اپنی بہن كو   دودھ پلادے تو یہ عورت اس کی رضاعی خالہ بن جائے گی، اس صورت میں گود لینے والی سے بچے کے پردے کا حکم نہیں ہوگا، اسی طرح اگر بچی گود لی ہو  تو  شوہر  کی بیوی یا بہن وغیرہ اس کو مدتِ رضاعت میں دودھ پلادے ۔

تیسرا یہ کہ وراثت کے معاملہ میں بھی گود لینے والے کو باپ کا درجہ نہیں دیا جائے گا۔

ارشاد باری تعالی ہے:

"وما جعل أدعياءكم أبناءكم ذلكم قولكم بأفواهكم والله يقول الحق وهو يهدي السبيل  (۴)ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم في الدين ومواليكم وليس عليكم جناح فيماأخطأتم به ولكن ما تعمدت قلوبكم وكان الله غفورا رحيما(۵)"(الاحزاب : ۴، ۵)

ترجمہ: "اورنہ تمہارے لے پالکوں کوتمہارے بیٹے بنایا ، یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور اللہ تعالی توسچی بات فرماتا ہے اور وہ سیدھا راستہ دکھاتا ہے ۔ مومنو! لے پالکوں کو ان کے( اصلی ) باپوں کےنام سے پکارا کرو کہ اللہ کےنزدیک یہ بات درست ہے۔ اگر تم کو ان سےباپوں کے نام معلوم نہ ہوں تو دین میں وہ تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور جو بات تم سےغلطی سےہو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن جو قصد دل سے کرو ( اس پر مؤاخذہ ہے )اوراللہ بڑا بخشنے ولا نہایت  مہربان ہے ۔"

تفسیر مظہری میں ہے:

"فلا يثبت بالتبني شىء من احكام النبوة من الإرث وحرمة النكاح وغير ذلك."

(الاحزاب: ۵ جلد ۷ ص: ۲۸۴ ط: مکتبۃالرشدیة)

سنن ابی  داؤد میں ہے:

"عن أنس بن مالك، قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: "من ادعى إلى غير أبيه، أو انتمى إلى غير مواليه، فعليه لعنة الله المتتابعة إلى يوم القيامة."

(ابواب النوم جلد ۷ ص: ۴۳۷ ط: دارالرسالةالعالمیة)

ترجمه:"حضرت انس رضي الله عنه سے روايت هے كه ميں نے رسول الله صلي الله عليه وسلم كو فرماتے هوئے سنا جو شخص اپنےباپ کے علاوہ کسی اور کا بیٹا ہونے کا دعو ی کرے یا (کوئی غلام ) اپنے آقاؤں کی بجائےدوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو اس پر اللہ تعالی کی مسلسل لعنت ہو۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"يحرم من الرضاع أصوله وفروعه وفروع أبويه."

(کتاب النکاح ، فصل فی المحرمات جلد ۳ ص: ۳۱ ط: دارالفکر)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144401100224

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں