بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کے لیے کھڑا ہونے کی مختلف صورتیں اور ان کا حکم


سوال

کسى دوست رشتے دار والدین یا کسی بزرگ کسى عالم دین کے احترام میں کھڑے ہونا جائز ہے یا پھر ممنوع ہے؟

جواب

واضح ہو کہ کسی کے لیے کھڑا ہونے کی مختلف صورتیں ہیں :

(1)  ممنوع :  جو شخص تکبر  کی بناپر اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے یہ پسند کرتاہو   کہ جب وہ آئے تو لوگ اس کے لیے کھڑے ہوجائیں، یہ ناجائز ہے۔

(2)مکروہ :  جس شخص کے دل میں تکبر نہ ہو اور  نہ وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے چاہے کہ اس کے لیے لوگ کھڑے ہوں، لیکن کھڑا ہونے والا یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ کھڑا نہیں ہوا تو کچھ نقصان ہوسکتا ہے، یہ  قیام نا پسندیدہ  ہے۔

(3) جائز : نیکی اور اعزاز واکرام  کی غرض سے کسی کے لیے کھڑا ہونا جب کہ اُس کی طرف سے کھڑے ہونے کی کوئی خواہش  نہیں۔ یہ جائز ہے۔

(4) مستحسن:  کوئی سفر سے آیا تو مارے خوشی کے سلام ومصافحہ کے لیے کھڑے ہوجانا، یا کسی کو کوئی نعمت ہاتھ آگئی، اس کو مبارک باد دینے کے لیے کھڑے ہونا یا کوئی مصیبت آن پڑی تو تسلی ودلاسہ  دینے کے لیے کھڑے ہوجانا۔ یہ مستحسن ہے۔

صورتِ مسئولہ میں  کسی قابل شخص کی تعظیم کے لیے، یا کسی عادل بادشاہ کے آنے پر  رعایا کا، یا استاذ کےآنے پر طلبہ کا، یا بزرگ شخصیت کے احترام کے لیے،  یا بیوی کا شوہر کے لیے، اولاد کا والدین کے لیے،  یا قرابت دار کے احترام میں، یا آںے والے کو سلام یا مصافحہ کے لیے اکراماً  کھڑا ہونا، جائز ہے، بلکہ بعض مواقع پر مستحب ہے، البتہ  جس کے لیے کھڑا ہواجائے اس کے دل میں بڑائی یا تکبر کی وجہ سے اپنے لیے کھڑے ہونے کی خواہش نہ ہو، اور کھڑے ہونے والا اس کے شر یا مفسدہ سے بچنے کے لیے کھڑا نہ ہو۔

جب کہ اس شخص کے لیے کھڑا ہونا جو اپنے لیے کھڑا ہونے کو پسند کرتا ہو، یا جس کے لیے کھڑا نہ ہونے کی صورت میں نقصان کا اندیشہ ہو، یا وہ کوئی فاسق فاجر شخص ہو، یا اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر مستقل کھڑا رہا جائے جیساکہ عجمی بادشاہوں کا طرز ہے، یا جب تک آنے والا شخص نہ بیٹھ جائے اس کے سامنے کھڑا رہنا ضروری ہو اور نہ کھڑے ہونے پر عتاب ہو، یہ درست نہیں ہے۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري  میں ہے :

" وعن أبي الوليد بن رشد: أن القيام على أربعة أوجه: الأول: محظور، وهو أن يقع لمن يريد أن يقام إليه تكبرا وتعاظما على القائمين إليه. والثاني: مكروه وهو أن يقع لمن لا يتكبر ولا يتعاظم على القائمين، ولكن يخشى أن يدخل نفسه بسبب ذلك ما يحذر، ولما فيه من التشبه بالجبابرة. والثالث: جائز وهو أن يقع على سبيل البر والإكرام لمن لا يريد ذلك، ويؤمن معه التشبه بالجبابرة. والرابع: مندوب وهو أن يقوم لمن قدم من سفر فرحا بقدومه ليسلم عليه أو إلى من تجددت له نعمة فيهنيه بحصولها. أو مصيبة فيعزيه بسببها."

(كتاب الأدب، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: قوموا إلى سيدكم، ج22، ص252، دار إحياء التراث العربي - بيروت)

 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404101515

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں