بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی جگہ سے رقم کا ملنا


سوال

میں ایک اسکول میں کام کرتا ہوں عراق میں، وہاں اکثر بینچوں کے نیچے پیسے ملتے ہیں اور میں ان کے حقیقی مالک کو نہیں جانتا، کیا میں وہ استعمال کر سکتا ہوں یا حرام کے زمرے میں آتا ہے؟

جواب

راستے میں پڑی ہوئی رقم، ’’لقطہ ‘‘  کے حکم میں ہوتی ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ جس شخص کو ایسی رقم ملے   تو اس رقم کی حتی الوسع تشہیر کرے، اگر تشہیر کے باوجود مالک کا پتا نہ لگے تو اس کو محفوظ  رکھے،  تاکہ مالک کے آجانے کی صورت میں مشکل پیش نہ آئے۔ اور  حتی الوسع تشہیر کے ذرائع استعمال کرنے کے باوجود اگر مالک ملنے سے مایوسی ہوجائے تومالک کی طرف سے رقم کسی  فقیر کو صدقہ کردے، اور اگر خود زکات کا مستحق ہے تو خود بھی استعمال کرسکتاہے۔البتہ صدقہ کرنے یاخود استعمال کرنے کے بعد مالک آجاتاہے تواسے اپنی رقم کے مطالبے کا  اختیار حاصل ہوگا۔ 

ملتقي الأبحرمیں ہے:

"وللملتقط أن ينتفع باللقطة بعد التعريف لو فقيرا وإن غنيا تصدق بها ولو على أبويه أو ولده أو زوجته لو فقراء وإن كانت حقيرة كالنوى وقشور الرمان والسنبل بعد الحصاد ينتفع بها بدون تعريف وللمالك أخذها ولايجب دفع اللقطة إلى مدعيها إلا ببينة ويحل إن بين علامتها من غير جبر."

(کتاب اللقطۃ، ص:530،531،ط:دارالکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101603

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں