بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی ادارے کا خریدار کی طرف سے قیمت ادا کرکے بعد میں خریدار سے نفع سمیت وصول کرنے کا حکم


سوال

 مجھے بالفرض 30  بوری چینی کی ضرورت ہے ، اگر کوئی ادارہ  مجھے سے آکر یہ کہے کہ آپ جس سے چینی کی  خریداری کرنا چاہتے ہیں،  ان سے خریداری کر لیں، پیسے ہم ادا کردیتے ہیں ، اگر میں یہ رقم ان کو ہفتے کے اندر واپس کرتا ہوں تو مجھے  0.7٪ اضافی رقم دینی ہوگی اور اگر 15 دنوں میں ادا کرتا ہوں تو 1.5٪ادا کرنا ہوگی اور اگر مہینے میں ادا کرتا ہوں تو 2.5٪ادا کرنا ہوگی، کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر آپ کسی جگہ سے چینی کی خریداری کریں گے اور ادارے والے آپ کی طرف سے رقم کی ادائیگی کریں گے تو  یہ آپ کے ذمے  ادارے والوں کا قرض ہوگا، لہٰذا اگر آپ  ہفتے، پندرہ  دن یا مہینے بعد اس قرض کی ادائیگی کے وقت اصل قرض کی رقم کے ساتھ  %0.7  یا %1.5 یا   %2.5 اضافی رقم بھی ادا کرنے کا معاہدہ کرتے ہیں تو  یہ معاملہ قرض کی بنیاد پر نفع کے لین دین پر مشتمل ہونے کی وجہ سے سودی معاملہ بن جائے گا، اور  سودی معاملہ اور سودی لین دین کرنا شریعتِ  مطہرہ کی رو سے ناجائز اور حرام ہے، اس لیے سوال میں مذکورہ طریقہ پر معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔

البتہ اگر ادارے  والے خود چینی خرید کر  اس پر قبضہ کرنے کے بعد اپنا کچھ منافع رکھ کر آپ پر وہ چینی بیچ دیں تو یہ صورت جائز ہوگی، بشرط یہ  کہ آپ ادارے سے خریداری کرتے وقت رقم کی ادائیگی کی ایک حتمی مدت (مثلًا ایک ہفتہ یا 15  دن یا ایک مہینہ) اور نفع کے ساتھ  چینی کی حتمی قیمت طے کرلیں،  اگر حتمی مدت اور قیمت طے کیے  بغیر اس طرح عقد  کیا جائے کہ ایک ہفتہ میں ادائیگی کی صورت میں قیمت  (مثلًا) دس ہزار  اور پندرہ  دن میں ادائیگی کی صورت میں قیمت گیارہ ہزار اور ایک مہینے میں ادائیگی کی صورت میں بارہ ہزار روپے قیمت ادا کرنی پڑے گی تو  اس طرح کا معاملہ بھی شریعت کی رو سے ناجائز ہوگا؛  اس  لیے معاملہ کے جائز ہونے کے  لیے ضروری ہوگا کہ آپ کے اور ادارے کے درمیان عقد کے معاہدہ میں کوئی ایک حتمی مدت (مثلًا 15  دن) اور کوئی حتمی قیمت  (مثلًا گیارہ ہزار روپے) طے ہوجائیں۔

اعلاء السنن میں ہے:

"قال ابن المنذر: أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زیادة أو هدیة  فأسلف على ذلك إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا". 

(14/513، باب کل قرض جرّ منفعة، کتاب الحوالة، ط: إدارۃ القرآن)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: كلّ قرض جرّ نفعًا حرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.

(قوله: كلّ قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر. ثم رأيت في جواهر الفتاوى إذا كان مشروطًا صار قرضًا فيه منفعة وهو ربا وإلا فلا بأس به اهـ ما في المنح ملخصًا وتعقبه الحموي بأن ما كان ربًا لايظهر فيه فرق بين الديانة والقضاء على أنه لا حاجة إلى التوفيق بعد الفتوى على ما تقدم أي من أنه يباح." 

( مطلب كل قرض جر نفعاً حرام ٥/ ١٦٦ ط: سعيد)

المبسوط للسرخسی میں ہے :

"وإذا عقدالعقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال: إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع، وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية، وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد ... الخ"

(کتاب البیوع، باب البیوع الفاسدة، ج:۱۳، ص:۸، ط:دارالمعرفة)

بدائع الصنائع میں ہے:

" وكذا إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلى سنة أو بألف وخمسمائة إلى سنتين؛ لأن الثمن مجهول، وقيل: هو الشرطان في بيع وقد روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم «نهى عن شرطين في بيع» ولو باع شيئا بربح ده يازده ولم يعلم المشتري رأس ماله فالبيع فاسد حتى يعلم فيختار أو يدع هكذا روى ابن رستم عن محمد؛ لأنه إذا لم يعلم رأس ماله كان ثمنه مجهولا وجهالة الثمن تمنع صحة البيع فإذا علم ورضي به جاز البيع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد زالت في المجلس وله حكم حالة العقد فصار كأنه كان معلوما عند العقد وإن لم يعلم به حتى إذا افترقا تقرر الفساد."(5/ 158)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200825

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں