بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی غیر مسلم لڑکی کو باندی بنانا


سوال

اس دور میں اگر کوئی عیر مسلم عورت مسلمانوں کے قبضے میں آ جائے تو وہ یہ مسلمان لونڈی کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں کہ نہیں بغیر نکاح کے جیسا کہ اول زمانے میں ہوتاتھا؟

جواب

غلام و باندی کا دستور  اسلام سے قبل قدیم زمانے سے چلا آرہا تھا اور ہر قوم میں یہ عادت پائی جاتی تھی خواہ عیسائی ہوں یا یہودی، ہنود ہوں یا دیگر اقوام، اسی طرح عربوں میں بھی یہ دستور  رائج تھا،  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل غلام یاباندی بنانے کے مختلف طریقے لوگوں میں رائج تھے۔
اول: جنگی قیدیوں کو غلام یا باندی بنا لیا کرتے تھے۔
دوم: لوگ، فقر وفاقہ کے باعث یا قرض کے دباؤ میں آکر اپنے بچوں کو یا خود اپنے آپ کو کسی کے ہاتھ فروخت کر دیتے اور وہ ان کو اپنا غلام یا باندی بنا لیتے۔
سوم:کسی جرم کی پاداش یا قمار بازی میں ہارے جانے کی صورت میں لوگ غلام بنالیے جاتے تھے۔
چہارم: یوں بھی کسی کو چرا کر لے آتے او رزبردستی غلام یا باندی بنالیتے وغیرہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلامی کی ان تمام صورتوں کو سخت ناجائز اور موجبِ عذابِ الٰہی قرار دیا اور صرف ایک صورت کو باقی رکھا۔ یعنی وہ  کفار جو جنگ میں گرفتا رکیے جائیں، مسلمان حاکم کو اختیار ہے کہ اگر مقتضائے مصلحت و سیاست بہتر سمجھے تو ان کفار قیدیوں کو غلام/باندی بنالے۔ اور جو افراد پہلے سے غلامی کی زنجیر میں ہوں انہیں بھی مختلف کفارات میں آزاد کرنے کے احکام قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویہ میں آئے ہیں۔ احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ غلامی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب اور سزا کی ایک صورت ہے جو کفر کی جزا کے طور پر پچھلی امتوں میں جاری کی گئی، اور مسلمانوں کے لیے بھی کسی کو ابتداءً غلام بنانے کی اجازت اسی حالت میں باقی رکھی گئی کہ جو کافر اسلام کے مقابلے پر آجائیں تو ایسے حربی کافروں کو مخصوص احوال میں غلام بنانے کی اجازت دی گئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ دینِ اسلام میں ابتداءً غلام بنانے کا حکم یا ترغیب نہیں ہے، بلکہ مخصوص احوال میں اس کی گنجائش دی ہے جو اجازت کے درجے میں ہے۔

چوں کہ غلام بنانا اسلام میں بطورِ حکم نہیں، بلکہ بطورِ اجازت ہے، تو مسلمانوں کو اس بات کی اجازت ہے کہ جب وہ قرینِ مصلحت سمجھیں تو  غلام بنانے کا سلسلہ موقوف رکھیں، موجودہ دور میں اقوامِ متحدہ کی سطح پر تمام رکن ممالک کے مابین غلامی کا سلسلہ موقوف کرنے کا معاہدہ ہوچکا ہے، اس لیے اس دور میں مسلمانوں نے بھی یہ سلسلہ بالکل موقوف کردیا ہے، لہٰذا جو ممالک اس معاہدے میں شامل ہیں انہیں معاہدے کی رو سے اس کی پاس داری کرنی چاہیے۔ البتہ اگر کوئی اسلامی ملک اس معاہدے سے برابری کی سطح پر دست بردار ہوجائے پھر موجودہ یا آئندہ زمانے میں کسی خطے میں شریعت کی جانب سے عائد کردہ شرائط کے مطابق جہاد ہو اور حربی کفار کے جنگی قیدی مسلمانوں کے قبضے میں آئیں اور مسلمان امیر  کفار قیدیوں کو غلام/باندی بنانے کی اجازت دے دے تو  ان قیدیوں کو غلام/باندی بنانا جائز ہوگا۔البتہ غلام اور باندیوں کے جو حقوق اسلام نے بتا ئے ہیں، اور ان کے بارے میں جو وصیتیں فرمائی ہیں، ان کی پاس داری لازم ہوگی۔جیسے: ان کے کھانے ،پینے ، آرام اور صحت وغیرہ کے حقوق اور خیال رکھنا۔

بہرحال جن صورتوں میں غلام/ باندی بنانے کا جواز ہے، ان کاذکر اوپر ہوچکا ہے کہ شرعی جہاد ہو ، امام المسلمین کی رائے ہو اورمسلمانوں اورغیر مسلموں میں کوئی ایسا معاہدہ نہ ہو جس کی رو سے ایک دوسرے کے قیدیوں کو غلام نہ بنایاجاسکتا ہو اور موجودہ دور میں یہ شرائط مکمل نہیں ہیں، اس لیے غیر مسلم  لڑکی کو غلام بنانا درست نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200510

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں