بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی دوسری جگہ رہائش سے وطنِ اصلی باطل نہیں ہوتا


سوال

ہمارا تعلق ضلع موسیٰ خیل بلوچستان سے ہے، تقریباً چھ سو (۶۰۰)سال سے ہم وہاں آباد ہیں، اور اب تجارت  کےلیے سندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں میں آباد ہوگئےہیں، لیکن ہمارا اصلی وطن اورعلاقہ موسیٰ خیل بلوچستان ہے، اور ہم لوگ اسی کو وطنِ اصلی سمجھتے ہیں، جب کوئی آدمی فوت ہوجائے تو لاش وہاں لے جاتے ہیں، اور غمی وشادی وغیرہ  ادھر ہی ہوتی ہے، اور جب شناختی کارڈ بناناہوں تو وہاں جانا پڑتاہے، اور جس وطن میں ہم اب آباد ہے، اس کو ہم لوگ  وطنِ اصلی نہیں سمجھتے ہیں، جب کہ ہم نے یہاں پر زمینیں بھی لی ہیں، اس کے باوجود حکومت ہماراشناخت موسیٰ خیل سے کرتی ہیں، سندھ اور پنجاب میں حکومت ہمار اشناختی کارڈ نہیں بناتی ہیں، اور کہتے ہیں کہ موسیٰ خیل سے تصدیق لاؤ، اور موسیٰ خیل میں ہمارے آباؤاجداد کے وقت سے زمینیں ہیں ، اور ابھی بھی ہمارے قبضے میں ہیں، اور اس کوبیچنے کا ارادہ بھی نہیں ہے، جب یہاں سختی ہوتی ہے، تو ہم لوگ موسیٰ خیل چلے جاتے ہیں اور موسیٰ خیل میں علاقائی طور پر جو فیصلے ہوتے ہیں، ہم اس کے پابند ہوتے ہی، مثلاً اگر موسیٰ خیل میں کوئی نقصان ہوجائے تو اس کی تلافی کےلیے ہم یہیں سے رقم بھیجتےہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ جب ہم موسیٰ خیل جائیں گے تو وہاں پر ہم مسافر شمار ہوں گے یا نہیں؟ آیا سفر کےاحکامات جاری ہوں گے یا نہیں؟ موسیٰ خیل ہمارا وطنِ اصلی شمار ہوگا یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جو وطن انسان کا وطنِ اصلی ہو وہ  محض دوسری جگہ رہائش اختیار کرنے سے باطل نہیں ہوتا، بلکہ اگر کوئی شخص اپنے وطنِ اصلی کے علاوہ کسی اور علاقے کو وطن بنالیتاہے اور پہلے وطن سے اہل وعیال اور جائیداد وغیرہ ختم نہیں کرتا تو  ایسے شخص کے لیے دونوں وطن ہی اس کے وطنِ اصلی کہلائیں گے اور ایسا آدمی دونوں جگہ نماز مکمل پڑھے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل چوں کہ موسیٰ خیل بلوچستان سے ابھی تک اپنی رہائش مکمل طور پر ختم نہیں کی ہے، بلکہ سائل کی زمینیں اور گھر وغیرہ ابھی بھی موسیٰ خیل میں موجود ہے، اور اس کی نیت اب بھی اسےوطنِ اصلی برقرار رکھنے کی ہے؛ اسی لیے موسیٰ خیل سائل کا وطنِ اصلی شمار ہوگا، اور سائل وہاں جانے پر مسافر شمار نہیں ہوگا، نہ ہی سفر کے دیگر احکام مثلاً نماز قصر پڑھنا وغیرہ لاگو ہوں گے، بلکہ سائل موسیٰ خیل میں پوری نماز ہی پڑھے گا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

 "ثم الأوطان ثلاثة: وطن أصلي وھو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخریٰ اتخذھا داراً وتوطن بھا مع أھله وولدہ ولیس من قصدہ الإرتحال عنھا بل التعیش بھا،……فالوطن الأصلي ینتقض بمثله لا غیر، وھو أن یتوطن الإنسان في بلدة أخریٰ وینقل الأھل إلیها من بلدته فیخرج الأول من أن یکون وطناً أصلیاً له حتی لو دخل فيه مسافراً لا تصیر صلاته أربعاً."

(كتاب الصلاة، فصل بيان ما يصير المسافر به مقيما، ج:1، ص:103، ط: دار الکتب العلمیة)

بحرالرائق میں ہے:

"قوله: ’’ويبطل ‌الوطن ‌الأصلي بمثله لا السفر ووطن الإقامة بمثله والسفر والأصلي‘‘؛ لأن الشيء يبطل بما هو مثله لا بما هو دونه فلا يصلح مبطلا له.........وھذا الوطن - الوطن الأصلي- یبطل بمثله لا غیر، وھو أن یتوطن في بلدة أخریٰ وینقل الأھل إلیھا فیخرج الأول من أن یکون وطناً أصلیاً حتی لو دخله مسافراً لا یتم، قیدنا بکونه انتقل عن الأول بأھله؛ لأنه لو لم ینتقل بھم ولکنه استحدث أھلاً في بلدة أخریٰ فإن الأول لم یبطل ویتم فیھما، ….... وفی المجتبی: نقل القولین فیما إذا نقل أھله ومتاعه وبقي له دور وعقار ثم قال: وھذا جواب واقعة ابتلینا بھا وکثیر من المسلمین المتوطنین فی البلاد ولھم دور وعقار فی القری البعیدة منھا یصیفون بھا بأھلھم ومتاعھم فلا بد من حفظھا أنھما وطنان له لا یبطل أحدھما بالآخر."

(کتاب الصلاة، باب المسافر ج:2، ص:147، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101389

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں