کیاجنازہ سے پہلے دوسرے شہر میں میت کے لیے دعا کر سکتے ہیں؟
کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے لیے کسی بھی وقت دعا کی جاسکتی ہے، البتہ فقہاءِ کرام نے نمازِ جنازہ کے بعد متصلاً وہیں ٹھہر کر اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھاکر دعا کرنے کو بدعت کہہ کر ممنوع قرار دیا ہے ، کیوں کہ نمازِ جنازہ جو کہ خود دعا ہے اس کے بعد وہیں ٹھہر کر متصلًا دعا کرنے سے یہ تأثر پیدا ہوتا ہے کہ نمازِ جنازہ والی دعا کافی نہیں ہے اور یہ نماز جنازہ میں اضافہ کے بھی مشابہہ ہے، لیکن اگر میت کا جنازہ کسی اور شہر میں ہو اور میت کے کچھ اقارب دوسرے شہر میں ہوں اور وہ لوگ وہاں پر جنازہ سے پہلے یا بعد میں کسی بھی وقت کی تعیین کیے بغیر میت کے لیے انفرادی یا اجتماعی دعا کرنا چاہیں یا کسی مسجد میں کوئی امام نماز کے بعد اجتماعی دعا کرلے تو اس کی گنجائش ہوگی ،کیوں کہ اس میں وہ مفاسد نہیں پائے جاتے جو نماز جنازہ کے بعد متصلًا وہیں دعا کرنے کے ہیں۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 1213):
"ولايدعو للميت بعد صلاة الجنازة؛لأنه يشبه الزيادة في صلاة الجنازة".
فتاویٰ محمودیہ (۸؍۷۰۸ ، ۷۱۰ ) ادارۃ الفاروق:
’’نماز جنازہ خود دعا ہے،اس کے بعد وہیں ٹہر کر دعا کرنا جیسا کہ بعض جگہ رواج ہے شرعاً ثابت نہیں، خلاصۃ الفتاویٰ میں اس کو مکروہ لکھا ہے۔
فقہاء نے نماز جنازہ سے فارغ ہوکر بعد سلام میت کے لیے مستقلاً کھڑے ہو کر دعا کرنے سے منع فرمایا ہے، فقہ حنفی کی معتبر کتاب "خلاصۃ الفتاویٰ" میں اس کو منع کیا ہے، اس دعا کا نیک کام ہونا کیا حضور ﷺ ، خلفائے راشدین، ائمہ مجتہدین وغیرہ کو معلوم نہیں تھا؟ آج ہی منکشف ہوا ہے؟ ‘‘
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144210201400
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن