بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو القعدة 1445ھ 21 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی آن لائن کمپنی کے ایپ کے ذریعہ خرید و فروخت کرنے کا حکم


سوال

 daraz.pk ویب سائٹ سے منسلک ہو کر  اپنی اشیاء کو آن لائن فروخت کرنا کیسا ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ کسی آن لائن شاپنگ ویب سائٹ یا کسی بھی آن لائن ایپ اور پلیٹ فارم سے   آن لائن کاروبار کرنے کی صورت میں جو چیز فروخت کی جارہی ہو  اگر وہ فروخت کرنے والے کی ملکیت میں موجود ہو اور تصویر دکھلا کر سودا کیا جا رہا ہو تو ایسی صورت میں بھی آن لائن خرید و فروخت شرعاً درست ہوگی، لیکن اگر مال فروخت کرنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے اور وہ محض اشتہار، تصویر دکھلاکر کسی کو وہ سامان فروخت کرتا ہو (یعنی سودا کرتے وقت یوں کہے کہ: ’’فلاں چیز میں نے آپ کو اتنے میں بیچی‘‘، وغیرہ) اور بعد میں وہ سامان کسی اور دکان،اسٹوروغیرہ سے خرید کردیتا ہو تو یہ صورت فروخت کنندہ  کی ملکیت یا قبضہ میں وہ چیز  موجود نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ جو چیز فروخت کرنا مقصود ہو وہ فروخت کنندہ کی ملکیت یا وکیل (ایجنٹ)کے قبضے میں ہونا شرعاً ضروری ہوتا ہے۔

اس کے جواز کی صورتیں درج ذیل ہیں:
:- فروخت کنندہ  مال قبضہ میں آنے سے پہلے فروختگی  نہ کرے، بلکہ فروختگی کا وعدہ کرے،فروختگی کا معاملہ مال پہنچنے کے بعد کرے اور فروخت کنندہ اور خریدار  سے یہ کہہ دے کہ یہ چیز اگر آپ مجھ سے خریدیں گے تو میں آپ کو اتنے کی قیمت میں دوں گا۔

 :-آن لائن کام کرنے والا فرد یا کمپنی ایک فرد (خریدار) سے آرڈر لے اورمطلوبہ چیز کسی دوسرے فرد یا کمپنی سے لے کر خریدار تک پہنچائے اور اس عمل کی اُجرت مقرر کرکے لے تو یہ بھی جائز ہے، یعنی اشیاء کی خرید وفروخت کے بجائے بروکری كرے اور اس کی اُجرت مقرر کرکے یہ معاملہ کرے۔ 

البتہ جواز کی ہر صورت میں خریدار کو مطلوبہ چیز ملنے کے بعد ”خیارِ رؤیت“ حاصل ہوگا، یعنی جب ’’مال‘‘ خریدار کو مل جائے تو دیکھنے کے بعد اس کی مطلوبہ شرائط کے مطابق نہ ہونے کی صورت میں اُسےواپس کرنے کااختیار حاصل ہوگا۔

چوں کہ  آن لائن خرید وفروخت کرتے ہوئے ’’مال‘‘ کی تصویر دکھانا بعینہ نمونہ دکھانے کی طرح نہیں ہے، کیوں کہ تصویر کسی شئے کی مثل تو ہے، عین نہیں ہے ، لہٰذا حقیقتاً مال  دیکھ لینے کے بعد خریدار کو خیارِ رؤیت حاصل ہوگا۔

حدیث شریف میں ہے:

’’عن ابن عباسؓ، أن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم قال: ’’من ابتاع طعاما فلا يبعه حتی يستوفيه‘‘، قال ابن عباسؓ: وأحسب کل شيء مثله.‘‘

 (الصحيح لمسلم، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض رقم الحديث:1525 )

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب کوئی کھانے کی چیز خریدے تو اس وقت تک نہ بیچے جب تک اس پر مکمل قبضہ نہ کرلے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: میں سمجھتا ہوں کہ ہر چیز کا یہی حکم ہے۔‘‘

’’فتح القدیر‘‘ میں ہے:

"ومن اشتری شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتی يقبضه، لأنه عليه الصلاۃ والسلام نهی عن بيع ما لم يقبض ؛ولأن فيه غرر انفساخ العقد علی اعتبار الهلاك... ثم علل الحديث (لأن فيه غرر انفساخ العقد) الأول (علی اعتبار هلاك المبيع) قبل القبض فيتبين حينئذٍ أنہ باع ملک الغير بغير إذنه وذٰلك مفسد للعقد، وفي الصحاح أنه صلی اللہ عليه وسلم نهی عن بيع الغرر."

(کتاب البیوع:ج:ص:510، 5126، ط: دار الفکر)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(لا) تحرم (المنظور إلی فرجها الداخل) إذا رآہ (من مرآۃ أو ماء) لأن المرئي مثاله (بالانعکاس) لا هو۔ (قوله: لأن المرئي مثاله إلخ) يشير إلی ما في الفتح من الفرق بين الرؤية من الزجاج والمرآۃ، وبين الرؤية في الماء، ومن الماء حيث قال: کأن العلة واللہ سبحانه وتعالی أعلم أن المرئي في المرآۃ مثاله لا هو وبهذا عللوا الحنثَ فيما إذا حلف لا ينظر إلی وجه فلان، فنظرہ في المرآۃ أو الماء وعلی هٰذا فالتحريم به من وراء الزجاج، بناء علی نفوذ البصر منه فيری نفس المرئي بخلاف المرآۃ، ومن الماء، وهذا ينفي کون الإبصار من المرآۃ والماء بواسطة انعکاس الأشعة، وإلا لرآہ بعينه بل بانطباع مثل الصورۃ فيهما، بخلاف المرئي في الماء؛ لأن البصر ينفذ فيه إذا کان صافيا فيری نفس ما فيه، وإن کان لا يراہ علی الوجه الذي هو عليه، ولهذا کان له الخيار إذا اشتری سمکة رآها في ماء بحيث تؤخذ منه بلا حيلة. اهـ. وبه يظهر فائدۃ قول الشارح مثاله، لکنه لا يناسب قول المصنف تبعا للدرر بالانعکاس، ولهذا قال في الفتح وهذا ينفي إلخ، وقد يجاب بأنه ليس مراد المصنف بالانعکاس البناء علی القول بأن الشعاع الخارج من الحدقة الواقع علی سطح الصقيل کالمرآۃ والماء ينعکس من سطح الصقيل إلی المرئي، حتی يلزم أنه يکون المرئي حينئذ حقيقته لا مثاله، وإنما أراد به انعکاس نفس المرئي، وهو المراد بالمثال فيکون مبنيا علی القول الآخر ويعبرون عنه بالانطباع، وهو أن المقابل للصقيل تنطبع صورته، ومثاله فيه لا عينه، ويدل عليه تعبير قاضي خان بقوله؛ لأنه لم ير فرجها، وإنما رأی عکس فرجها، فافهم."

(کتاب النکاح، فصل فی المحرمات: ج:3، ص: 34 ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404101730

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں