1.میرے والد صاحب نے آج سے تقریباً 30 سال قبل اپنی زندگی میں ہی ایک زمین خریدی تھی، لیکن والد صاحب کے پاس چوں کہ آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا جس سے وہ اس زمین کی قیمت ادا کرتے، اس لیے اس جائیداد کی پوری قیمت میرے بڑے بھائی نے ادا کی جو اس وقت برسرِروزگار تھے، اور پورے گھر کی کفالت کرتے تھے، اب جب کہ ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے، تو یہ جائیداد ہمارے والد کی ملکیت شمار ہوکر ورثاء میں تقسیم ہوگی یا ہمارے بھائی کی شخصی ملکیت سمجھی جائے گی؟ جب کہ مذکورہ بھائی کہتا ہے کہ میں جس وقت اس زمین کی قیمت ادا کر رہا تھا، اس وقت میری ایسی کوئی نیت نہیں تھی کہ یہ میری شخصی زمین ہے یا میں اس کو اپنے لیے خرید رہا ہوں، بلکہ میرا یہ خیال تھا کہ یہ ہم سب کی مشترکہ زمین ہے۔
2. ناخن کاٹنے کا مستحب طریقہ کیا ہے؟
1. صورتِ مسئولہ میں زمین کی خریداری کا معاملہ والد نے ہی کیا تھا، لہٰذا زمین والد کی ملکیت ہوگی اور انتقال کے بعد یہ زمین ان کا ترکہ شمار ہوگی، جو تمام ورثاء میں شرعی ضابطۂ میراث کے مطابق تقسیم ہوگی، باقی اگر بیٹے نے والد کے ذمہ واجب الادا قیمت والد کے حکم کے بغیر ازخود ادا کی ہے تو یہ قرض کی ادائیگی میں بیٹے کی طرف سے تعاون شمار ہوگا،اس صورت میں اسے یہ رقم واپس نہیں ملے گی، البتہ اگر والد کے حکم سے قیمت کی ادائیگی کی ہے، تو اس صورت میں بیٹا والد کے ترکہ سے اپنی رقم لینا چاہے تو لے سکتا ہے۔
2. ناخن کاٹنے کا مسنون طریقہ منقول نہیں ہے، کسی بھی طریقہ سے ناخن کاٹ سکتے ہیں، البتہ علماءِ دین اور سلف صالحین نے درج ذیل دو طریقوں سے ناخن کاٹنے کو بہتر کہا ہے:
پاؤں کے انگلیوں میں دائیں پاؤں کے چھوٹی انگلی سے شروع کر کے ترتیب وار بائیں پاؤں کے چھوٹی انگلی تک ناخن کاٹے جائیں۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"الحوالة إذا كانت بغير أمر المحيل؛ كان المحال عليه متبرعا."
(کتاب الحوالة، فصل في بيان حكم الحوالة، ج:6، ص:18، دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
(طالب المحتال عليه المحيل بما) أي بمثل ما (أحال) به مدعيا قضاء دينه بأمره.
قوله طالب المحتال عليه المحيل. . . إلخ) أي بعدما دفع المحال به إلى المحتال...(قوله بأمره) قيد به لأنه لو قضاه بغير أمره يكون متبرعا."
(كتاب الحوالة، ج:5، ص:346، سعيد)
وفيه أيضا:
"قلت: وفي المواهب اللدنية قال الحافظ ابن حجر: إنه يستحب كيفما احتاج إليه ولم يثبت في كيفيته شيء ولا في تعيين يوم له عن النبي صلى الله عليه وسلم وما يعزى من النظم في ذلك للإمام علي ثم لابن حجر قال شيخنا إنه باطل.
قال في الهداية عن الغرائب: وينبغي الابتداء باليد اليمنى والانتهاء بها فيبدأ بسبابتها ويختم بإبهامها، وفي الرجل بخنصر اليمنى ويختم بخنصر اليسرى اهـ ونقله القهستاني عن المسعودية."
(کتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:406، سعيد)
نیل الاوطارشرح منتقی الاخبار میں ہے:
"قال النووي: ويستحب أن يبدأ باليدين قبل الرجلين فيبدأ بمسبحة يده اليمنى ثم الوسطى ثم البنصر ثم الخنصر ثم الإبهام ثم يعود إلى اليسرى فيبدأ بخنصرها ثم بنصرها إلى آخره، ثم يعود إلى الرجل اليمنى فيبدأ بخنصرها ويختم بخنصر اليسرى انتهى."
(کتاب الطهارة، أبواب السواك وسنن الفطرة، ج:1، ص:142، دار الحديث مصر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607102628
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن