بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی چیز کا نام صمد رکھنے کا حکم


سوال

کسی ٹیوب کا نام صمد بونڈ رکھنے کا کیا حکم ہے ؟ اگر نام رکھ لیا ہو تو کیا اسے تبدیل کرنا ضروری ہے ؟

جواب

واضح ہو کہ "صمد" اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے جس  کے معنی ہیں: ہمیشہ رہنے والا،  حاجتوں کو پورا کرنے والا ،  وہ اسماءِ حسنیٰ جو باری تعالیٰ کے اسمِ ذات ہوں یا صرف باری تعالیٰ کی صفاتِ مخصوصہ کے معنیٰ میں ہی استعمال ہوتے ہوں،شرعی طور پر  ان کااستعمال غیر اللہ کے لیے کسی حال میں جائز نہیں ہے۔

 سوال میں مذکور ٹیوب   جس کا نام "صمد بونڈ" ہے،چُوں کہ اس میں  "صمد"  نام باری تعالیٰ کی صفاتِ مخصوصہ میں سے ہے ، لہٰذا کسی ٹیوب کا نام صمد بونڈ رکھنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ نیز اس نام کے  رکھنے میں اس کی بے ادبی کا قوی اندیشہ ہے، اگر یہ نام رکھ لیا ہے تو اس کو  تبدیل کردینا ضروری ہے اور اگر کسی چیز پر یہ نام لکھا ہوا ہو تو  اس کو مٹادیں یا کاٹ دیں۔

معجم الوسیط میں ہے:

"(الصمد) المقصود لقضاء الحاجات واسم من أسماء الله الحسنى ويقال شيء ‌صمد مصمت لا جوف له".

(باب الصاد، ج:1، ص:523، ط:دارالدعوۃ) 

اللباب في الجمع بين السنة والكتاب میں ہے:

"معناه أسماء الله تعالى، وهو الواحد الأحد الفرد ‌الصمد، فيكون معناه هذه الأسماء لله خاصة".

‌‌(ذكر مَا فِيهِ من الْغَرِيب، ‌‌بَاب الْمُخْتَار تشهد ابْن مَسْعُود رَضِي الله عَنهُ، ج:1، ص:245، ط:دار القلم - الدار الشامية بيروت)

تحفة المودود بأحكام المولود میں ہے:

"ومما يمنع تسمية الإنسان به أسماء الرب تبارك وتعالى فلا يجوز التسمية بالأحد والصمد ولا بالخالق ولا بالرازق وكذلك سائر الأسماء المختصة بالرب تبارك وتعالى ولا تجوز تسمية الملوك بالقاهر والظاهر كما لا يجوز تسميتهم بالجبار والمتكبر والأول والآخر والباطن وعلام الغيوب".

(الْبَاب الثَّامِن فی ذكر تَسْمِيَته وأحكامها ووقتها---، الْفَصْل الثَّانِي فِيمَا يسْتَحبّ من الْأَسْمَاء وَمَا يكره مِنْهَا، ص:125، ط:مكتبة دار البيان - دمشق)

وفیہ أیضاً:

"قال علي بن أبي طلحة عن ابن عباس في تفسير قول الله ‌الصمد قال السيد الذي كمل سؤدده والمقصود أنه لا يجوز لأحد أن يتسمى بأسماء الله المختصة به

وأما الأسماء التي تطلق عليه وعلى غيره كالسميع والبصير والرؤوف والرحيم فيجوز أن يخبر بمعانيها عن المخلوق ولا يجوز أن يتسمى بها على الإطلاق بحيث يطلق عليه كما يطلق على الرب تعالى".

(الْبَاب الثَّامِن فی ذكر تَسْمِيَته وأحكامها ووقتها---، الْفَصْل الثَّانِي فِيمَا يسْتَحبّ من الْأَسْمَاء وَمَا يكره مِنْهَا، ص:127، ط:مكتبة دار البيان - دمشق)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لأن لتلك الحروف حرمة، كذا في السراجية".

(کتاب الکراھیات، الباب الخامس، ج:5، ص:323، ط:دارالفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101431

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں