بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی بڑے/ بزرگ کی تصویر دیکھ کر ماشاء اللہ کہنے کا حکم


سوال

بڑے آدمی/ بزرگ کی تصویر کو دیکھ کر  ماشاءالله کہنا کیسا  ہے؟

جواب

کسی شدید ضرورت کے بغیر جان دار  کی تصویر بنانا   حرام اور کبیرہ گناہ ہے،خواۃ عام تصویر ہو یا ڈیجیٹل تصویر ہو، کپڑے یا کاغذ پر بنائی جائے یا در و دیوار پر، خواہ  اس تصویر کشی کے  لیے کوئی بھی  آلہ استعمال کیا جائے،  تصویر بنانے پر حدیثِ مبارک میں بہت وعیدیں وارد ہوئیں ہیں،   لہذا کسی بھی انسان کی تصویر بنانا اور رکھنا ناجائز ہے، خواہ وہ عام آدمی کی ہو یا بڑے/ بزرگ کی ہو ، اس کو ڈیلیٹ کردینا ضروری ہے، بلکہ بڑے/ بزرگوں کی تصویریں بنانا اور رکھنا  زیادہ خطرناک ہوتا ہے، اس لیےکہ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق پچھلی امتوں میں بھی نیک لوگوں  کی تصاویر اور مورتیاں بنانے سے شرک کی ابتدا  ہوئی تھی  کہ لوگ ان کی عظمت اور عقیدت میں رفتہ رفتہ ان کو پوجنے لگے تھے، اس لیے اسلام میں تصویر کشی  اور تصویر سازی کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔چناں چہ  جب  جاندار کی تصویر ہی ناجائز ہے تو اس پر ماشاء اللہ کہنا بھی ناجائز ہے،  خواہ تصویر  کسی  عام آدمی کی ہو  یا کسی بڑے/ بزرگ کی ہو، کیوں کہ  ایمان کا تقاضا تو  یہ  ہے کہ کسی ناجائز کام کو دیکھ کر دِل تلملا اٹھے اور آدمی اس کام کو اگر روکنے پر قادر نہ ہو تو کم از کم دِل میں اسے غلط سمجھے، اس لیے اگر کسی بزرگ کی تصویر دیکھ  کر بھی ماشاء  اللہ  کہنا جائز نہیں ہوگا،  خواہ مقصود اُن کی شخصیت کی تعریف ہی ہو، کیوں کہ جس وقت تصویر سامنے ہو تو یہی شائبہ ہوگا کہ ایک منکر اور ناجائز چیز کو دیکھ کر ماشاء اللہ کہا جارہا ہے۔

تصویر کی حرمت کے بارے میں مسلم شریف کی  احادیثِ صحیحہ ملاحظہ ہوں:

"وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، جميعا عن ابن عيينة - واللفظ لزهير - حدثنا سفيان بن عيينة، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، أنه سمع عائشة، تقول: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقد سترت سهوة لي بقرام فيه تماثيل، فلما رآه هتكه وتلون وجهه وقال: «يا عائشة أشد الناس عذابا عند الله يوم القيامة، الذين يضاهون بخلق الله» قالت عائشة: «فقطعناه فجعلنا منه وسادة أو وسادتين»".

(صحيح مسلم،كتاب اللباس والزينة،باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة، 3/ 1668، ط: دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ: "ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میں نے ایک طاق یا مچان کو اپنے ایک پردے سے ڈھانکا تھا جس میں تصویریں تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو اس کو پھاڑ ڈالا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت میں ان لوگوں کو ہو گا جو اللہ کی مخلوق کی شکل بناتے ہیں۔“  سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ہم نے اس کو کاٹ کر ایک تکیہ یا دو تکیے بنائے۔"

"عن نافع، أن ابن عمر أخبره، ‏‏‏‏‏‏أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ " الذين يصنعون الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم".

(صحيح مسلم،كتاب اللباس والزينة،باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة، 3/ 1669، ط:دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ:" سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو لوگ تصویریں بناتے ہیں ان کو قیامت میں عذاب ہو گا، ان سے کہا جائے گا زندہ کرو  ان کو جن کو تم نے بنایا۔"

"عن مسروق ، عن عبد الله ، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن أشد الناس عذاباً يوم القيامة المصورون".

(صحيح مسلم،كتاب اللباس والزينة،باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة، 3/ 1670، ط:دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ: "سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت میں تصویر بنانے والوں کو ہو گا۔"

"عن سعيد بن أبي الحسن ، قال:‏‏‏‏ جاء رجل إلى ابن عباس ، فقال:‏‏‏‏ إني رجل أصور هذه الصور فأفتني فيها؟ فقال له:‏‏‏‏ ادن مني، فدنا منه، ‏‏‏‏‏‏ثم قال:‏‏‏‏ ادن مني، فدنا حتى وضع يده على رأسه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ أنبئك بما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ " كل مصور في النار يجعل له بكل صورة صورها نفساً فتعذبه في جهنم"، ‏‏‏‏‏‏وقال:‏‏‏‏ إن كنت لا بدّ فاعلاً فاصنع الشجر، ‏‏‏‏‏‏وما لا نفس له".

(صحيح مسلم،كتاب اللباس والزينة،باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة، 3/ 1670، ط: دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ: "سعید بن ابی الحسن سے روایت ہے، ایک شخص عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں یہ تصویریں  بناتا ہوں، اس بارے میں مجھے فتویٰ دیجیے!  سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میرے قریب ہو، وہ ہوگیا، پھر انہوں نے فرمایا: قریب ہوجاؤ، چناں چہ وہ اور نزدیک ہوگیا، یہاں تک کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا اور فرمایا: میں تجھ سے کہتا ہوں وہ جو میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”ہر ایک تصویر بنانے والا جہنم میں جائے گا اور ہر ایک تصویر کے بدل ميں ایک جان داربنایا جائے گا جو تکلیف دے گا اس کو جہنم میں۔“ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر تو نے بنانا ہی ہے تو درخت کی یا کسی اور بےجان چیز کی تصویر بنا۔"

"عن النضر بن أنس بن مالك، قال:‏‏‏‏ كنت جالساً عند ابن عباس، ‏‏‏‏‏‏فجعل يفتي، ‏‏‏‏‏‏لايقول:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى سأله رجل، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ إني رجل أصور هذه الصور، ‏‏‏‏‏‏فقال له ابن عباس:‏‏‏‏ ادنه فدنا الرجل، ‏‏‏‏‏‏فقال ابن عباس : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏يقول: "من صور صورة في الدنيا كلف أن ينفخ فيها الروح يوم القيامة، ‏‏‏‏‏‏وليس بنافخ ".

(صحيح مسلم،كتاب اللباس والزينة،باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة، 3/ 1671، ط: دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ:" سیدنا نضر بن انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ فتویٰ دیتے تھے اور حدیث نہیں بیان کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے پوچھا: میں مصور ہوں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میرے پاس آ، وہ پاس آیا ،سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو شخص دنیا میں تصویر بنائے اس کو قیامت کے دن اس تصویر میں روح (جان) ڈالنے کا مکلّف بنایا جائے گا لیکن وہ جان نہ ڈال سکے گا۔"

بخاری شریف میں ہے:

"حدثنا إبراهيم بن موسى، أخبرنا هشام، عن ابن جريج، وقال عطاء: عن ابن عباس رضي الله عنهما، «صارت الأوثان التي كانت في قوم نوح في العرب بعد أما ود كانت لكلب بدومة الجندل، وأما سواع كانت لهذيل، وأما يغوث فكانت لمراد، ثم لبني غطيف بالجوف، عند سبإ، وأما يعوق فكانت لهمدان، وأما نسر فكانت لحمير لآل ذي الكلاع، أسماء رجال صالحين من قوم نوح، فلما هلكوا أوحى الشيطان إلى قومهم، أن انصبوا إلى مجالسهم التي كانوا يجلسون أنصابا وسموها بأسمائهم، ففعلوا، فلم تعبد، حتى إذا هلك أولئك وتنسخ العلم عبدت."

(كتاب تفسير القرآن، باب {ودا ولا سواعا، ولا يغوث ويعوق} [نوح: 23]، 6/ 160، ط: دار طوق النجاة)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا،انتهى،وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان،وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ". 

(كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، 1/647، ط: سعيد)

بلوغ القصدوالمرام میں ہے:

"يحرم تصوير حيوان عاقل أو غيره إذا كان كامل الأعضاء، إذا كان يدوم، وكذا إن لم يدم على الراجح كتصويره من نحو قشر بطيخ. ويحرم النظر إليه؛ إذا النظر إلى المحرم لَحرام".

(جواہر الفقہ، تصویر کے شرعی احکام: 7 / 264، 265 از: بلوغ  القصد والمرام، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:

"الحالة الرابعة: الإنكار بالقلب فرض عين على كل مكلف ولا يسقط أصلا، إذ هو كراهة المعصية وهو واجب على كل مكلف. وقال الإمام أحمد: إن ترك الإنكار بالقلب كفر لحديث وهو أضعف الإيمان الذي يدل على وجوب إنكار المنكر بحسب الإمكان والقدرة عليه، فالإنكار بالقلب لا بد منه فمن لم ينكر قلبه المنكر دل على ذهاب الإيمان من قلبه".

(حسبة،الحكم التكليفي، 17/ 229، ط: دارالسلاسل - الكويت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100046

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں